اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

نماز عید کے لیے کم از کم نمازیوں کی تعداد

سوال

نماز عید کی ادائیگی کے لیے کم از کم کتنے نمازیوں کا ہونا ضروری ہے؟ کیونکہ ہمارے ہاں لوگوں کے اجتماعات پر پابندیاں ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقہائے  کرام نماز عید کی ادائیگی کے لیے کم از کم تعداد کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں، چنانچہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں کم از کم چالیس  کی تعداد  ہے۔

جبکہ شافعی  فقہائے کرام نے اکیلے نماز عید کی بھی اجازت دی ہے۔

چنانچہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (5/ 26) میں کہتے ہیں:
"کیا غلام، مسافر، عورت اور اکیلے شخص کے لیے گھر میں یا کہیں اور تنہا نماز عید پڑھنا جائز ہے؟
اس بارے میں دو اقوال ہیں: دونوں میں سے صحیح ترین  اور مشہور  ترین قطعی موقف یہ ہے کہ ان کے لیے  اکیلے نماز عید پڑھنا جائز ہے۔" ختم شد

جبکہ راجح یہ ہے کہ معتبر تعداد 3 ہے۔

جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (5/ 131) میں کہتے ہیں:
"نماز عید کی ادائیگی کے لیے نماز جمعہ والی تعداد کا ہونا شرط ہے، تو حنبلی مذہب میں مشہور فقہی موقف تو یہی ہے کہ مقامی افراد میں سے 40 افراد ہوں تو جمعہ کی نماز ادا کی جا سکتی ہے، جبکہ ہم پہلے اس موقف کو راجح قرار دے آئے ہیں کہ جمعہ کے لیے معتبر تعداد 3 افراد ہیں، لہذا عید اور جمعہ کی نماز کا ایک ہی حکم ہو گا چنانچہ کم از کم تین افراد کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر کسی بستی میں صرف ایک ہی مسلمان شخص ہے تو  وہ نماز عید ادا نہیں کرے گا، اسی طرح دو افراد ہوں تب بھی نماز عید ادا نہیں کریں گے، جبکہ تین ہوں تو وہ نماز عید ادا کر سکتے ہیں۔" ختم شد

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"سوال: کیا نماز عید کی ادائیگی کے لیے کوئی مخصوص تعداد کی شرط ہے؟ جیسے کہ جمعہ کی نماز کے لیے مخصوص تعداد کی شرط لگائی جاتی ہے۔ اور اس کا کیا حکم ہو گا کہ اگر جمعہ کے دن عید آ جائے ؟ میں نے اس بارے میں سنا ہے کہ جمعہ کی نماز مقتدیوں پر واجب نہیں ہو گی جبکہ امام پر واجب ہو گی؛ اس صورت میں امام اکیلا  نماز جمعہ کیسے ادا کرے گا اور صرف امام پر ہی نماز جمعہ کیسے واجب ہو گی؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"نماز عید  اور نماز جمعہ دونوں ہی مسلمانوں کے بہت بڑے شعائر میں شامل ہیں، دونوں ہی مسلمانوں پر واجب ہیں، بلکہ جمعہ تو فرض عین ہے، جبکہ عید کی نماز اکثر فقہائے کرام کے ہاں فرض کفایہ ہے، جبکہ بعض کے ہاں فرض عین ہے۔

تاہم علمائے کرام کا دونوں کے لیے مخصوص تعداد کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے: ان میں سے صحیح ترین موقف یہ ہے کہ کم از کم تین یا اس سے زیادہ افراد کی موجودگی میں جمعہ اور عید کی نماز قائم کی جا سکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ ان کے لیے 40 افراد کا ہونا ضروری ہے تو اس پر کوئی قابل اعتماد صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔

جمعہ اور عید کی نماز کے لیے شہری آبادی اور مقامی افراد کا ہونا ضروری ہے، چنانچہ دیہات اور مسافروں پر جمعہ اور نماز عید دونوں ہی فرض نہیں ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر  یوم عرفہ اور جمعہ کا دن اکٹھا ہوا تو  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعہ نہیں پڑھا  اور نہ ہی یوم النحر کو عید کی نماز پڑھی، تو اس سے معلوم ہوا کہ مسافروں پر نہ تو عید کی نماز ہے اور نہ ہی جمعہ کی نماز ہے، اسی طرح دیہات کے رہنے والوں پر بھی جمعہ نہیں ہے۔

تاہم جب عید اور جمعہ کا دن اکٹھے ہو جائیں تو  عید کی نماز  میں شامل ہونے والے شخص کے لیے جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے، اور جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنا بھی جائز ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عید کی نماز میں شرکت کرنے والوں کو جمعہ کی نماز میں عدم شرکت کی اجازت دی، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہو گئی ہیں چنانچہ اگر کوئی عید  میں شامل ہو گیا ہے تو اس پر جمعہ لازم نہیں ہے۔)

البتہ یہ ضرور ہے کہ ظہر کی نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ، اگرچہ افضل یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرے، اور اگر جمعہ ادا نہیں کرتا تو پھر لوگوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھے۔ جبکہ امام  صاحب سمیت جمعہ کے لیے تین یا اس سے زائد حاضر ہونے والوں کو جمعہ ضرور پڑھائیں گے، لیکن اگر امام سمیت دو افراد ہی مسجد میں آئیں تو وہ ظہر پڑھیں گے۔" ختم شد

خلاصہ یہ ہوا کہ:
نماز عید تین یا تین سے زائد افراد کے ساتھ قائم کی جا سکتی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب