جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

مسلمان اپنے آپ کی اسلامی تربیت کیسے کرے؟

سوال

کوئی شخص دینی طور پر بہت زیادہ پسماندہ ہے، تو وہ اپنے آپ کو اسلامی دھارے میں کیسے دھارے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان اپنے اندر موجود کوتاہی کی تشخیص کر لے تو یہ ذاتی تربیت کا پہلا قدم ہے۔

اگر کسی کو اپنی کمی کوتاہی کا علم ہو جائے تو وہ ذاتی تربیت کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے، چنانچہ کوتاہی کا علم اس راستے پر ہمیں تیز چلنے کی ترغیب دلاتا ہے، کوتاہی کا علم ہو جانا انسان کو اس کی ذاتی تربیت سے دور نہیں کرتا؛ کیونکہ کوتاہی کا علم ہو جانے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے بندے کو توفیق مل جاتی ہے کہ انسان مثبت تبدیلی اور بہتری کے لیے کوشاں ہو ، فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کریں۔[الرعد: 11]

انسان اپنے بارے میں مکمل طور پر بذات خود انفرادی طور پر ذمہ دار ہے، اور اس سے اس ذاتی ذمہ داری کے بارے میں انفرادی حیثیت میں ہی حساب لیا جائے گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمَانِ عَبْدًا(93)لَقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا(94)وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا 
 ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی ہر چیز رحمان کے پاس بندہ بن کر ہی آنے والی ہے۔ بلاشبہ اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں خوب اچھی طرح گن کر شمار کر رکھا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اللہ کے پاس ذاتی حیثیت میں آنے والا ہے۔ [مریم: 95]

انسان کو جتنی بھی مفید چیزیں دے دی جائیں جب تک انسان خود ہی ان چیزوں سے مستفید ہونے کے لیے تیار نہ ہو تب تک انسان کو ان مفید چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں پر غور نہیں کرتے کہ دونوں ہی انبیائے کرام کی بیویاں ہیں بلکہ ان میں سے ایک تو اولو العزم پیغمبروں میں شامل ہیں۔ پھر یہ بھی تصور میں لائیں کہ ان انبیائے کرام نے اپنی بیویوں کی اچھی تربیت کرنے کی کتنی کوشش کی ہو گی؟! لیکن چونکہ ان بیویوں کے اندر سے ہی اپنی اصلاح کی کوشش معدوم تھی تو انہی کو کہہ دیا گیا: ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِين ترجمہ: تم دونوں جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں چلی جاؤ۔[التحریم: 10]

جبکہ دوسری طرف فرعون کی بیوی کا معاملہ دیکھ لیں کہ وہ سب سے بڑے مجرم کے گھر میں تھیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے انہیں اہل ایمان کے لیے بطور مثال پیش فرمایا؛ کیونکہ فرعون کی اہلیہ ذاتی طور پر اپنی اصلاح اور ایمانی تربیت کی حامل تھیں۔

چنانچہ ذیل میں ہم ذاتی تربیت کے وسائل بیان کرتے ہیں:

1-اللہ کی بندگی کریں، اللہ تعالی سے ناتا مضبوط کریں، اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیں، اس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ تمام فرائض کی ادائیگی کریں اور دل کو غیر اللہ سے بالکل پاک کرتے ہوئے صرف اللہ تعالی سے لو لگائیں۔

2- قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں، اور دوران تلاوت قرآن کریم پر غور و فکر کریں، اور اس کے رازوں کو جاننے کی کوشش کریں۔

3-مفید پند و نصائح پر مشتمل ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں دلوں کی بیماریوں کا علاج اور دوا بیان کی گئی ہے، مثال کے طور پر منہاج القاصدین، تہذیب مدارج السالکین وغیرہ ۔ اسی طرح سلف صالحین کی سیرت اور اخلاق کا مطالعہ بھی کریں، اس کے لیے آپ ابن الجوزی کی کتاب صفۃ الصفوۃ اور اسی طرح بہاؤ الدین عقیل و ناصر الجلیل کی کتاب "أين نحن من أخلاق السلف" کا مطالعہ بھی کریں۔

4- تربیتی پروگراموں میں شرکت کریں۔

5- اپنے وقت کو ضائع مت کریں، اور اسے دنیاوی و اخروی طور پر مفید مثبت سرگرمیوں میں صرف کریں۔

6-مباح کاموں میں بہت زیادہ مشغول نہ ہوں اور انہیں حد سے زیادہ اپنی زندگی میں جگہ نہ دیں۔

7- اچھے لوگوں کو اپنا دوست بنائیں، اور نیک لوگوں کو تلاش کر کے ان کی رفاقت میں رہیں یہی لوگ آپ کو خیر کے کاموں میں مصروف کریں گے، تنہائی اور الگ تھلگ رہنے والے لوگ ایثار اور صبر جیسی بھائی چارے اور ملنساری والی خوبیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

8- عملی اور پریکٹیکل زندگی گزاریں، جس چیز کا علم ہے اس پر عمل کریں۔

9-ذاتی محاسبہ سخت انداز میں کریں۔

10- اللہ تعالی پر مکمل بھروسا کر کے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں؛ کیونکہ جب تک خود اعتمادی نہیں ہو گی اس وقت تک انسان کوئی عمل نہیں کر سکتا۔

11-ذات باری تعالی کے متعلق ہمیشہ اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائیں، یہ بات سابقہ بات سے متصادم نہیں ہے؛ کیونکہ انسان کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کبھی بھی اللہ تعالی کا حق مکمل طور پر ادا نہیں کر سکتا اس لیے انسان یہ سمجھے کہ اس میں ضرور کمی اور کوتاہی موجود ہے۔

12-شریعت کی روشنی میں تنہائی اختیار کرے، یعنی مطلب یہ ہے کہ انسان ہر وقت لوگوں کے جھرمٹ میں مت رہے بلکہ کچھ اوقات ایسے بھی رکھے جن میں تنہا بیٹھ کر اللہ تعالی کی بندگی کرے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنی ذاتی اصلاح کرنے کی توفیق دے، اور ہمارے نفس کو اللہ تعالی کے محبوب و پسندیدہ اعمال کرنے والا بنا دے۔

اللہ تعالی ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد