جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

فوت شدہ نمازوں كى قضاء كا حكم

سوال

ميں نيا نيا مسلمان ہوا ہوں ميرے چند سوالات ہيں جن كے جوابات معلوم كرنا چاہتا ہوں، ميرے خيال ميں بعض ميں شديد قسم كى غفلت اور بے سمجھى ہو گى:
نماز ادا كرنے كے وقت كيا كہوں ؟
ميرے والدين بدھ مت كے پيروكار ہيں، اور خاندان ميں صرف ميرے والد صاحب كو ہى معلوم ہے كہ ميں نے اسلام قبول كر ليا ہے، ميرے خاندان كے افراد بعض اوقات مجھے اپنے ساتھ كھانے كى دعوت ديتے ہيں، ليكن ميں خنزير يا كوئى ايسا كھانا نہيں كھانا چاہتا جو حرام اشياء پر مشتمل ہو جنہيں ميں جانتا ہوں. ليكن ميں مرغى اور گوشت كى اقسام مثلا مچھلى وغيرہ جسے غير مسلمان ذبح كرتے ہيں كے متعلق دريافت كرنا چاہتا ہوں، آيا يہ حرام ہيں ؟
اور اس كے كھانے سے كيا ميں گنہگار ہونگا ؟
جن معصيت كا مجھ سے ارتكاب ہو چكا ہے اللہ تعالى كے ہاں ان سے توبہ كيسے ممكن ہے ؟
اور روزانہ ہو جانے والى معصيت و گناہ سے مجھے كيسے بخشش حاصل ہو گى ؟
اگر مجھ سے نماز فجر يا نماز ظہر يا نماز پنجگانہ ميں سے كوئى اور نماز رہ جائے تو كيا ميں معصيت كا مرتكب ٹھرونگا، اور اس كى بخشش كيسے ہو گى ؟
ميں قرآن مجيد اور نماز ميں پڑھى جانے والى دعائيں، اور عربى ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنا كيسے سيكھ سكتا ہوں، كم از كم وہ كلمات جو نماز ميں پڑھے جاتے ہيں ؟
اور سب سمندرى كھانے كيا حلال ہيں يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كا ہمارى ويب سائٹ پر اعتماد قابل ستائش ہے اس پر ہم آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں، اللہ تعالى سے ہمارى دعاء ہے كہ ہم حسن ظن ہوں اور آپ كو توفيق اور راہنمائى سے نوازے، اسى طرح ہم اس پر بھى آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں كہ جن اشياء كا آپ كو علم نہيں اس كى تعليم حاصل كر رہے ہيں، ہر مسلمان شخص پر واجب بھى يہى كيونكہ كوئى بھى شخص عالم ہى پيدا نہيں ہوتا.

اور جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى ہے:

" علم تو تعليم حاصل كرنے سے حاصل ہوتا ہے "

ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے فتح البارى ميں اسے حسن قرار ديا ہے، آپ يہ گمان نہ كريں كہ آپ كا كچھ اشياء سے جاہل ہونا بے سمجھى اور كند ذہنى شمار ہوتا ہے، بلكہ يہ تو مطلوب ہے اور اس بنا پر انسان قابل ستائش ہے.

دوم:

نماز كے متعلق سوالات كا تفصيلى جواب آپ سوال نمبر ( 13340 ) ميں ديكھ سكتے ہيں، اس ميں نماز كا مكمل طريقہ اور اس ميں كونسى دعائيں پڑھى جاتى ہيں اس كى تفصيل بيان كى گئى ہے.

سوم:

نماز ميں عربى زبان يا كسى اور زبان ميں قرآت كرنے كے متعلق تفصيل آپ كو سوال نمبر ( 3471 ) كے جواب ميں ملے گى اس كا مطالعہ كريں.

اور ہمارى آپ كو نصحيت ہے كہ عربى زبان سيكھنے كى شديد حرص ركھيں، كم از كم سورۃ فاتحہ تو ياد كر ليں، اور نماز كے واجبات اور اركان كى تعليم بھى حاصل كريں، يہ تو بہت ميسر ہيں.

يا تو كسى ايسے مسلمان شخص سے جسے اچھى طرح ياد اور حفظ ہوں اور اس كى قرآت بھى اچھى اور بہتر ہو، يا پھر آپ نيٹ پر كسى ويب سائٹ سے سيكھ ليں جس ميں قرآن كريم كى ريكارڈنگ موجود ہو، آپ اسے سن كر وہاں سے حفظ كر ليں.

چہارم:

نماز كا فوت ہونا اور رہ جانا دو حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

آپ كے ارادہ كے بغير بلكہ كسى شرعى عذر مثلا نيند يا بھول كر نماز رہ جائے، اور اصل ميں آپ اسے بروقت ادا كرنے پر شديد قسم كى حرص ركھتے ہوں، تو اس حالت ميں آپ معذور ہيں جيسے ہى آپ كو ياد آئے فورى طور پر نماز ادا كر ليں.

اس كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كا نماز فجر ميں سوئے رہنے كا قصہ بيان ہوا ہے جس كى بنا پر صحابہ كرام ايك دوسرے كے ساتھ چپكے چپكے بات چيت كرنے لگے تھے:

" ہم نے نماز ميں جو كوتاہى كى ہے اس كا كفارہ كيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" نيند ميں كوئى كوتاہى اور تفريط نہيں بلكہ كوتاہى تو اس كى ہے جو دوسرى نماز كا وقت ہو جانے تك نماز ادا نہيں كرتا، چنانچہ جو ايسا كرے وہ اسى وقت نماز ادا كر لے جب اسے نماز ياد آئے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 681 ).

اس كا معنى يہ نہيں كہ انسان عمدا اور جان بوجھ كر نماز كے وقت سويا رہے حتى كہ نماز رہ جائے اور پھر وہ نيند كا عذر پيش كرتا پھرے، يا پھر نماز كى ادائيگى ميں معاونت كرنے والے وسائل اور طريقہ ميں كوتاہى كرے اور پھر اس كا عذر پيش كرتا پھرے.

بلكہ وہ نماز كى ادائيگى كے ليے ہر قسم كے وسائل بروئے كار لائے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس واقعہ ميں بھى كيا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز كے ليے نيند سے بيدار كرنے كے ليے ايك شخص كو مقرر كيا، ليكن اسے بھى نيند كا غلبہ ہو گيا اور وہ لوگوں كو بيدار نہ كر سكا، تو اس حالت ميں انسان معذور شمار ہوتا ہے.

دوسرى حالت:

اس كى نماز جان بوجھ كر اور عمدا رہ جائے تو يہ عظيم معصيت اور خطرناك جرم ہے، حتى كہ بعض علماء تو ايسا كرنے والے كے كفر كا فتوى ديتے ہيں: " جيسا كہ مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى ميں ہے ديكھيں: ( 10 / 374 ) "

چنانچہ ايسے شخص كو سچى اور خالص اور پكى توبہ كرنى چاہيے اس پر اہل علم كا اجماع ہے، اس نماز كى قضاء ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا اس كے بعد بطور قضاء ادا كى گئى نماز قبول ہو گى يا نہيں ؟

چنانچہ اكثر علماء كرام اس كى قضاء كا كہتے ہيں اور اس كى قضاء صحيح ہو گى ليكن اسے گناہ ہو گا، ( يعنى اگر وہ توبہ نہ كرے واللہ اعلم ) جيسا كہ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے " الشرح الممتع ( 2 / 89 ) ميں نقل كيا ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے راجح يہ قرار ديا ہے كہ:

يہ صحيح نہيں، بلكہ اس كے ليے اس كا بطور قضاء ادا كرنا مشروع نہيں ہے، شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى الاختيارات ميں كہتے ہيں:

" اور جان بوجھ كر عمدا نماز ترك كرنے والے كے ليے اس كى قضاء مشروع نہيں، اور اس سے اس كى ادائيگى صحيح نہيں ہو گى، بلكہ اسے كثرت سے نوافل ادا كرنا ہونگے، سلف كےايك گروہ قول يہى ہے "

ديكھيں: الاختيارات ( 34 ).

معاصرين علماء كرام ميں اسے شيخ ابن عثميين رحمہ اللہ تعالى نے الشرح الممتع ميں راجح قرار ديا ہے، اور اس كے استدلال ميں درج ذيل حديث پيش كي ہے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

متفق عليہ.

لہذا آپ كے ليے اس معاملہ سے بہت زيادہ اجتناب كرنا ضرورى اور واجب ہے، اور آپ كو نمازيں بروقت ادا كرنے كى حرص ركھنى چاہيے جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

يقينا مؤمنوں پر نماز وقت مقررہ ميں ادا كرنا فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).

اور توبہ كے متعلق آپ كو اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 14289 ) كے جواب ميں تفصيل ملے گى اس كا مطالعہ كريں.

اور غير مسلموں كے ذبح كے متعلق آپ كو سوال نمبر ( 10339 ) كے جواب ميں تفصيل مل سكتى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

اور آپ نے سمندرى كھانوں كے متعلق جو سوال كيا ہے اس كے بارہ گزارش ہے كہ سب سمندرى كھانے اصل ميں حلال ہيں، كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے:

تمہارے ليے سمندى شكار حلال كيا گيا ہے، اور اس كا كھانا تمہارے ليے نفع ہے المآئدۃ ( 96 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعاء ہے كہ وہ آپ كو عربى تعليم اور دين ميں سمجھ حاصل كرنے كى توفيق سے نوازے، اور زيادہ سے زيادہ اعمال صالحہ كرنے كى توفيق عطا فرمائے، يقينا وہ اس پر قادر اور اس كا اہل ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب