الحمد للہ.
محسوس ہوتا ہے کہ آپ کلمے سے مراد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لے رہے ہیں، اور خطیب کی مراد بھی یہی تھی۔
تو کلمہ شہادت کی متعدد شرائط ہیں، جو کہ درج ذی ہیں:
پہلی شرط: علم
یعنی: اس کے معنی کا علم ہو، نفی کا بھی اور اثبات دونوں کا ایسا علم ہو جس سے جہالت ختم ہو جائے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
ترجمہ: جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں۔ [محمد: 19]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: ماسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے جانتے ہوئے حق کی گواہی دی۔[الزخرف: 86] یعنی : انہوں نے اپنے دل سے سمجھتے ہوئے زبان کے ساتھ اقرار کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ۔
صحیح حدیث میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص جانتے ہوئے فوت ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔)
دوسری شرط: یقین
کلمہ پڑھنے والے کا کلمہ پڑھتے ہوئے کلمہ کے مفہوم پر ایسا پختہ یقین کہ جس کی وجہ سے ہر قسم کا شک زائل ہو جائے؛ کیونکہ ایمان کے لیے یقین ہونا لازم ہے، کلمہ پڑھتے ہوئے غالب گمان سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، تو دل میں شک آنے سے کس طرح فائدہ ہو سکتا ہے؟ اہل ایمان کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
ترجمہ: یقیناً مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور شک و شبہ میں نہیں پڑے، انہوں نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ راہ الہی میں جہاد کیا ، یہی لوگ سچے مومن ہیں۔ [الحجرات: 15] تو یہاں اللہ تعالی نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر سچے ایمان کی شرط یہ رکھی ہے کہ وہ شک میں مبتلا نہیں ہوتے؛ کیونکہ شک کرنے والا تو منافق ہوتا ہے، اللہ تعالی ہمیں محفوظ رکھے۔
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، جو بندہ ان دونوں گواہیوں میں شک کیے بغیر اللہ سے ملے گا اسے جنت سے نہیں روکا جائے گا)
تیسری شرط: قبول کرنا
یعنی اس کلمے کے تقاضوں کو دل و زبان سے قبول کرنا، کلمے کو قبول کرنے والے کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ (40) أُولَئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَعْلُومٌ (41) فَوَاكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ (42) فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ
ترجمہ: سوائے اللہ کے مخلص بندوں کے، یہی لوگ ہیں جن کے لیے پہلے سے معلوم رزق ہے، پھل ہیں اور ان کی عزت افزائی کی جائے گی نعمتوں والی جنتوں میں۔[الصافات: 40 - 43] اس سے آگے بھی انہی کا تذکرہ ہے۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا:
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ
ترجمہ: نیکی لے کر آنے والے ہر ایک کو اس سے بھی بہتر صلہ ملے گا، اور وہ سب اس دن کی پریشانی سے امن میں ہوں گے۔[النمل: 89]
اور سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: (اس کی مثال جو اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دے کر مبعوث فرمایا، ایسی ہے جیسے زمین پر خوب بارش برسی اور اس میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو قبول کر لیا اور چارا سمیت بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس کا کچھ حصہ بہت سخت تھا، اس نے پانی کو جمع رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس جمع شدہ پانی سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اسے پیا، پلایا اور زراعت میں لگایا۔ اور زمین کا کچھ حصہ بنجر تھا کہ نہ تو پانی کو روکے اور نہ گھاس اگائے۔ تو یہ اس کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس چیز سے فائدہ دیا جو مجھے عطا فرمائی، اس نے خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اس طرف توجہ نہ کی اور مجھے دے کر بھیجی گئی اللہ کی ہدایت کو قبول نہ کیا)
چوتھی چیز: فرمانبرداری
یعنی کلمے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی ایسی فرمانبرداری جو نافرمانی کے منافی ہو، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ
ترجمہ: اور تم اپنے رب کی طرف توبہ کرتے ہوئے رجوع کرو اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ۔ [الزمر: 54]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ
ترجمہ: اور اس شخص سے بہترین دیندار کون ہو سکتا ہے جو اپنا چہرہ اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیکو کار بھی ہو؟۔[النساء: 125]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
ترجمہ: اور جو شخص اپنا چہرہ اللہ کے سپرد کر دے اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لیا ہے، اور تمام امور کا انجام اللہ کے سپرد ہے۔[لقمان: 22] یعنی اس نے لا الہ الا اللہ کو مضبوطی سے تھام لیا ہے۔ سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کا فرمانبردار بنا دے، اور نیکوکار کا مطلب ہے کہ وہ توحید پرست ہو۔
پانچویں شرط: صداقت
مطلب یہ ہے کہ ایسی سچائی جو جھوٹ کی نفی کر دے، یعنی یہ کلمہ صدق دل سے پڑھے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دل کی دنیا زبان کے الفاظ کی تائید کرے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
الم (1) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (2) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
ترجمہ: الم ٭ کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ "ہم ایمان لائے" اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ حالانکہ یقیناً ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا تا کہ اللہ تعالی سچے لوگوں کو عیاں کر دے اور جھوٹے لوگوں کو بھی آشکارا کر دے۔[العنکبوت: 1 -3]
صحیح بخاری اور مسلم میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کوئی بھی صدق دل سے یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں، تو اللہ تعالی نے اسے جہنم پر حرام کر دیا ہے۔)
چھٹی شرط: اخلاص
اخلاص کا یہ مطلب ہے کہ عمل صالح کو کسی بھی قسم کی شرکیہ آمیزش سے پاک رکھیں، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ
ترجمہ: خالص عبادت صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ [الزمر: 3]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ
ترجمہ: اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا کہ وہ یکسو ہو کر اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کی بندگی کے لیے عبادت کریں۔[البینہ: 5]
اور صحیح حدیث میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (لوگوں میں سے میری شفاعت پانے والا خوش نصیب وہ ہے جو اپنے دل یا جان کی خوشی سے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے۔)
ساتویں شرط: محبت
یہاں اس کلمے ، اس کلمے کے تقاضے اور اس کلمے کے معانی سے محبت مراد ہے، اسی طرح ان لوگوں سے محبت بھی مراد ہے جو اس کلمے کے ماننے والے ہیں اور اس کی شرائط کو پورا کرتے ہیں، ساتھ ہی اس کے منافی امور سے بغض رکھنا بھی لازم ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ وہ ان شریکوں کو یوں محبوب رکھتے ہیں۔ جیسے اللہ کو رکھنا چاہیے اور جو ایماندار ہیں وہ تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت رکھتے ہیں۔ [البقرۃ: 165] بندے کی اپنے رب سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ تعالی کی پسندیدہ چیز کو اپنی خواہش پر ترجیح دے، اور ایسی چیزوں کو برا سمجھے جو اللہ تعالی کے ہاں ناپسندیدہ ہیں چاہے ذاتی طور پر ان کی طرف مائل ہی کیوں نہ ہو۔ ان سے اپنا تعلق بنائے جن سے اللہ تعالی اور اس کے رسول کا تعلق ہے، اور ان سے دشمنی رکھے جن سے اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اتباع کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرامین کی پیروی کرے اور آپ کی رہنمائی قبول کرے۔ یہ تمام علامات محبت کی شرائط ہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی شرط نہ ہو تو محبت معدوم ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں جس میں پائی جائیں تو ان کی وجہ سے انسان ایمان کی مٹھاس پاتا ہے: اللہ اور اس کے رسول اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے محبت کرے، اور جب سے اللہ نے اسے کفر سے بچایا تو وہ کفر میں واپس لوٹنا اسی طرح ناپسند کرے جس طرح اُس کو آگ میں پھینکا جانا ناپسند ہے۔) یہ روایت بخاری مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
کچھ اہل علم نے آٹھویں شرط کا اضافہ بھی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جس غیر اللہ کی بھی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار، یعنی طاغوت کا انکار، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا اور اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کیا تو اس کا مال اور خون محترم ہے، اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ اس لیے کسی بھی شخص کی جان اور مال کو تحفظ حاصل ہونے کے لیے لا الہ الا اللہ کے اقرار پر غیر اللہ کا انکار بھی لازم ہے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
واللہ اعلم