الحمد للہ.
اول:
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اس دکان میں مسروقہ اشیا فروخت ہوتی ہیں تو پھر اس دکان سے خریداری کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ مسروقہ مال سارق کی ملکیت نہیں ہوتا، اس لیے چوری شدہ مال میں تصرف کرنا صحیح نہیں ہو گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (13/81)میں ہے:
"استعمال شدہ چیزوں کی مارکیٹ میں بسا اوقات چوری کی چیزیں بھی آ جاتی ہیں، اس بات کا علم ایسے ہوتا ہے کہ چوری شدہ مال فروخت کرنے والا شخص پریشان سا نظر آتا ہے، ایسے ہی اسے یہ نہیں پتہ ہوتا کہ اس چیز کے اندر کیا کچھ ہے؟ یا اسے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہوتا، یا اسے متعلقہ چیز کو استعمال نہیں کرنا آتا، یا معمولی قیمت میں اس چیز کو فروخت کر دیتا ہے، یا پھر اس نے اس چیز کو کہاں سے خریدا ہوتا ہے یہ اسے معلوم نہیں ہوتی، تو ایسی چیز خریدنے کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جب انسان کو یقین ہو جائے فروخت کے لیے پیش کی جانے والی چیز مسروقہ ہے یا غصب شدہ ہے، یا فروخت کے لیے پیش کرنے والا شخص اس کا شرعی طور پر مالک نہیں ہے، نہ ہی اس چیز کو فروخت کرنے والا شخص اصل مالک کی طرف سے نمائندہ ہے؛ تو پھر ایسے انسان پر یہ چیز خریدنا حرام ہو گا؛ کیونکہ اگر وہ یہ چیز خرید لیتا ہے تو گناہ اور جارحیت کے کاموں میں تعاون ہو گا، اور حقیقی مالک کو اس کی چیز سے محروم کرنا ہو گا، اسی طرح یہ عمل لوگوں پر ظلم اور برائی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا، صرف یہی نہیں وہ اس کے گناہ میں برابر کا شریک ہو گا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں باہمی تعاون کرو، گناہ اور جارحیت کے کاموں میں باہمی تعاون مت کرو۔ [المائدۃ: 3]
اس لیے اگر کسی کو معلوم ہو کہ یہ چوری یا غصب شدہ مال ہے تو وہ چور کو نرمی، پیار اور حکمت کے ساتھ سمجھائے تا کہ وہ چوری سے باز آ جائے، چنانچہ اگر باز نہ آئے اور چوری سے نہ رکے تو پھر متعلقہ اداروں کو اطلاع کرے تا کہ مجرم کے بارے میں مناسب فیصلہ کیا جائے، اور چوری شدہ اموال حقیقی مالکان تک پہنچ سکیں۔ متعلقہ اداروں کو اطلاع کرنا نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کی شکل ہے، نیز اس عمل میں ظالم کو ظلم سے روکنا بھی شامل ہے اور مظلوم سمیت ظالم کی بہتری کے لیے مدد بھی ہے۔" ختم شد
اگر کسی نے کوئی چوری شدہ سامان لا علمی میں خریدا اور پھر اسے معلوم ہو گیا کہ چوری شدہ سامان تھا تو اس پر سامان واپس کر کے قیمت واپس لینا لازم ہے؛ کیونکہ یہ بیع ہی صحیح نہیں ہے۔
لیکن اگر خریدی ہوئی چیز کے بارے میں شک ہو کہ وہ چوری شدہ ہے، یقین نہ ہو تو پھر ایسی چیز کو واپس کرنا لازم نہیں ہے؛ کیونکہ اصل یہ ہوتا ہے کہ بیع صحیح ہے۔
واللہ اعلم