اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نو مسلم خاتون اپنے چھوٹے بچوں اسلام کے بارے میں کیسے بتلائے کہ بچے اسلام سے محبت کرنے لگیں؟

سوال

میں الحمدللہ اسلام قبول کر چکی ہوں اور میرے 3 بچے ہیں، میرا عیسائی خاندان سے تعلق ہے اور صرف میں مسلمان ہوں انہوں نے میرے مسلمان ہونے کو قبول کر لیا ہے، اب میرا سوال یہ ہے کہ: میں اپنے بچوں کو اسلام کے بارے میں کیسے بتلاؤں؟ میرے ایک بیٹے کی عمر 11، دوسرے کی 8 اور تیسری بچی ہے جس کی عمر 5 سال ہے، میں ان کے ساتھ زبردستی نہیں کرنا چاہتی، میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنا فیصلہ خود کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کو دین اسلام قبول کرنے کی توفیق دی، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو ثابت قدم رکھے، اور آپ کے اہل خانہ کو بھی اس دین میں داخل ہونے کی ہدایت دے۔

ہم آپ کو تاکیدی نصیحت کریں گے کہ آپ اپنے گھر والوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے کسی بھی قسم کی سستی اور کاہلی کا شکار مت ہوں، آپ انہیں بہتر سے بہترین طریقے بروئے کار لاتے ہوئے کوشش میں لگی رہیں اللہ تعالی سے بہت امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کو ان کے مسلمان ہونے کی خوشخبری بھی سنائے گا، اور پھر آپ کے لیے بھی ان کے اجر جتنا اجر لکھا جائے گا۔

دوم:

آپ نے اپنے بچوں کے بارے میں سوال کر کے اچھا کیا کہ ان کی اسلام کے مطابق کیسے تربیت کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت بڑی ذمہ داری والدین کے کندھوں پر ڈالی ہے۔

چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا: اس لیے حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (853) اور مسلم : (1829) نے روایت کیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنے بچوں کی مفید تعلیم کے سلسلے میں سستی کا شکار ہوتا ہے، اور بچوں کو کھلا چھوڑ دیتا ہے تو اس شخص نے اپنے بچوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا، عام طور پر بچوں میں پائی جانے والی خرابیاں والدین کی طرف سے ہوتی ہیں کہ والدین بچوں کو توجہ نہیں دیتے، انہیں دینی فرائض اور سنتیں نہیں سکھاتے، جس کی وجہ سے نہ تو بچپن میں انہیں فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی بڑے ہو کر اپنے والدین کا دست و بازو بنتے ہیں۔" ختم شد
" تحفة المودود " (229 )

سوم:
بچوں کی اسلام کے بارے میں معرفت اور محبت بڑھانے کے لیے ہم آپ کو درج ذیل امور کا مشورہ دیں گے:

1-عربی زبان کے ساتھ انہیں جوڑیں، بچوں کے دلوں میں عربی زبان کی محبت پیدا کریں؛ کیونکہ عربی زبان فہمِ اسلام اور اسلام سے محبت کی کنجی ہے۔

2- اسلامی شعائر کے پابند ہم عمر بچوں کے ساتھ ان کی دوستی لگوائیں، آپ کے بچوں کے دوستوں کا با اخلاق اور دیندار ہونا ضروری ہے؛ تا کہ آپ کے بچے ان سے متاثر ہوں، اور دوستوں کی صحبت میں انہیں عملی رہنمائی ملے، آپ کے بچوں کے دوست شرعی امور پر عمل پیرا رہیں اور وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں برتاؤ کریں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور بھٹی پھونکنے والے لوہار کی سی ہے۔ کستوری بیچنے والے کے پاس سے تم دو فوائد میں سے ایک نہ ایک ضرور پا لو گے۔ یا تو کستوری ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم کستوری کی خوشبو تو ضرور پاسکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ تم بد بو تو اس سے ضرور پاؤ گے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (1995) اور مسلم : (2628) نے روایت کیا ہے۔

3-بیٹوں کو مسجد کے ساتھ منسلک کریں، اس کے لیے انہیں مسجد میں نماز کے لیے بھیجیں، دینی پروگراموں میں انہیں حاضر ہونے کا کہیں، اور بچوں میں سے جب بھی کوئی مخصوص مرحلہ یا ہدف پورا کرے تو انہیں انعام اور تحفہ بھی دیا جائے۔

اور اگر آپ بھی ان کے دلوں میں مسجد اور نماز کی محبت پیدا کرنے کے لیے ان کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

اور اگر مسجد دور ہو، یا راستہ پر امن نہ ہو تو پھر گھر میں انہیں نمازوں کے اوقات پر انہیں نماز ادا کرنے کی پابندی لازمی کروائیں اس میں کسی قسم کی سستی نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ آپ کو یہ لازمی حکم دیا گیا ہے کہ سات سال کے بچوں کو نماز ادا کرنے کا حکم دیں، سات سال سے پہلے بچے کو نماز سکھائی تو جائے گی لیکن اس پر نماز ادا کرنا لازم نہیں ہو گا۔

اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب بچے سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو، اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر جسمانی سزا دو، اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ : (495)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

4-انہیں خوبصورت آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سنائیں؛ تا کہ قرآن کریم بھی ان کے دلوں پر اثر انداز ہو، قرآن کریم تو ویسے ہی کتاب ہدایت اور لوگوں کے لیے روشنی ہے، قرآن کریم سب لوگوں کے لیے راستے منور کر دیتا ہے، اور اللہ کے حکم سے انہیں صراط مستقیم پر ثابت قدم بھی رکھے گا۔

5-اسلامی اقدار سے بھر پور کارٹون دیکھیں؛ تا کہ بچے بذات خود اسلامی اور غیر اسلامی اقدار میں فرق سمجھیں، یہاں آپ کا کردار بھی نہایت ضروری ہے کہ انہیں سمجھائیں کہ اسلام لوگوں کو خیر کے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے، صلہ رحمی، حسن سلوک، اور خدا ترسی کی ترغیب دلاتا ہے، اسلام ہمہ قسم کے شر، قطع رحمی، فساد اور سختی سے روکتا ہے۔

6-انہیں مفید اسلامی ویب سائٹس کے بارے میں بتلائیں، ہر بچے کو اس کی عمر کے مطابق رہنمائی دیں، لیکن بچوں کے پاس آزادانہ انٹرنیٹ رسائی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ آپ کی زیر نگرانی یہ سب کچھ ہو۔

7-آپ کچھ اس بارے میں بھی سوچیں کہ آپ انہیں عمرے کے لیے لے کر جائیں اور بیت اللہ کی زیارت کریں، اس عمل کا وہی اثر ہو گا جو آپ چاہتی ہیں؛ کیونکہ اللہ کے گھر کی زیارت کا نو عمر لڑکوں کی عمر پر خوب مثبت اثر ہوتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بڑوں پر ہوتا ہے۔

8-بچوں کی عمر کے مطابق انہیں اسلامی عقیدے کی بنیادی چیزیں سکھائیں، مثلاً: انہیں اللہ تعالی کی وحدانیت سکھائیں، انہیں یہ بتلائیں کہ اللہ تعالی ان کی ساری باتیں سنتا ہے، انہیں دیکھتا بھی ہے، اور دین پر کار بند اچھے کام کرنے والوں کو ثواب دے گا۔

اس لیے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اگرچہ چھوٹے تھے لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اللہ تعالی کی وحدانیت اور عقیدے سے متعلق بنیادی رہنمائی دی، چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : "ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا: (اے لڑکے! یقیناً میں تمہیں چند اہم باتیں سکھا رہا ہوں: تم اللہ کے احکام کی پابندی کرو وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، اور جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ اللہ کے لکھے ہوئے سے زیادہ بالکل نفع نہیں پہنچا سکتی ، اور اگر امت تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہو جائے تو بھی اللہ تعالی کے لکھے ہوئے سے زیادہ بالکل نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اس فیصلے کے بعد قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور تقدیر کے صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔)" اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ : (2516) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

9-آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت سے بچوں کی عمر کے مطابق مناسب واقعات انہیں سنائیں، اسی طرح صحابہ کرام کی زندگی سے بھی مناسب واقعات انہیں سنائیں، تا کہ بچوں کو یقین ہو جائے کہ ان کا تعلق سب سے اچھے دین سے ہے، سب سے اچھے نبی سے ہے اور وہ سب سے اچھی امت ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21215 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

10- انہیں اسلامی اسکول میں داخل کروائیں، کسی بھی ایسے تعلیمی ادارے سے انہیں بچائیں جو غیر مناسب ہو؛ کیونکہ اسلامی اسکول بچوں کے نظریات اور ان کے چال چلن پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اس کے لیے آپ اپنی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی اچھے ادارے کا انتخاب کر سکتی ہیں۔

نیز دو باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بالکل بھی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے:

اول: دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کے بچوں کو با صلاحیت بنائے ، انہیں ہدایت دے، اور انہیں کامیاب فرمائے؛ کیونکہ ماں کی بچوں کے لیے دعا بچوں کی صلاحیتوں اور ہدایت کے لیے نہایت عظیم ذریعہ ہے، چنانچہ دعا لازمی کریں اور دعاؤں میں کمی نہ آنے دیں۔

دوم: آپ بذات خود اپنے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھیں، ان کا بھر پور خیال رکھیں، یہ سب چیزیں محض ماں ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ بطور دیندار مسلمان بھی آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے۔

ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ جس خیر کے کام کے لیے کوشاں ہیں آپ کو اس میں کامیاب فرمائے، آپ کی اولاد کو اپنی رضا اور محبت کے موجب کام کرنے کی توفیق دے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: ( 10016 ) ، ( 4237 ) یہ سوال بہت اہم ہے۔ اور ( 10211 ) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب