منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

عرفات کے دن دعا کیلیے اکٹھے ہونے کا کیا حکم ہے؟

سوال

عرفہ کے دن عرفات یا کسی اور جگہ جمع ہو کر دعا کرنے کا کیا حکم ہے؟اس میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک حاجی کسی ایسی کتاب سے دعائیں پڑھاتا ہے جسے "دعائے عرفات" کا نام دیا جاتا ہے، اس میں حجاج اس کے پیچھے آمین نہیں کہتےبلکہ دعائیں پڑھانے والے کے پیچھے پیچھے پڑھتے ہیں، کیا یہ دعا بدعت ہے یا نہیں؟ ہم امید کرتے ہیں کہ دلائل سے وضاحت فرمائیں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

"اس عظیم دن میں حاجی کیلیے افضل یہی ہے کہ دعا کرنے کیلیے خوب محنت کرے، اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگے، اپنے ہاتھوں کو اس کے سامنے پھیلائے اور بلند کرے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سورج غروب ہونے تک خوب ذکر اور دعائیں فرمائی تھیں۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت ظہر اور عصر کی نماز وادی عرنہ میں جمع اور قصر کر کے ادا کیں تو آپ میدان عرفات میں موجود پتھروں   کے پاس آ گئے جسے "جبل دعا" بھی کہا جاتا ہے اور "جبل اِلال" بھی کہتے ہیں۔

آپ نے یہاں آ کر اپنے ہاتھ بلند کر کے قبلہ رخ ہو کر خوب دعا فرمائی آپ اس دوران اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلیے دعا کو گڑگڑا کر اور آہستہ آواز دونوں میں کرنے کا حکم  دیا ہے جس میں انسان کو قبولیت کی امید بھی ہو اور دعا مسترد ہونے کا خوف بھی لاحق ہو۔ نیز میدان  عرفات دعا کیلیے سب سے بہترین  جگہ ہے۔

دعا کیلیے تعلیمات دیتے ہوئے اللہ کا فرمان ہے: (ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ)
ترجمہ: تم اپنے پروردگار کو گڑگڑا کر اور آہستہ آواز میں پکارو، بیشک وہ زیادتی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: (وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ)
ترجمہ:اور اپنے پروردگار کا ذکر کر اپنے دل میں کرو۔

ایسے ہی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں روایت ہے کہ: ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں: "لوگوں نے دعا کرتے ہوئے آوازیں بلند کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا(لوگو! اپنے آپ پر ترس کھاؤ؛ کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ تم سننے والے اور دیکھنے والے کو پکار رہے ہو، بیشک جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ تم میں سے ہر ایک کی سواری کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے)"

مذکورہ طریقے پر دعا کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنے نبی زکریا علیہ السلام کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا: (ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا)
ترجمہ: یہ تیرے رب کی رحمت کا ذکر ہے جو اس کے بندے زکریا پر ہوئی ، جب انہوں نے اپنے پروردگار کو انتہائی دھیمی آواز میں پکارا۔

اور فرمایا ( وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ )

ترجمہ: " تیرے رب نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری حاجت پوری کروں گا"۔

ذکر اور دعائیں کرنے کے بارے میں بہت سی آیات  اور احادیث موجود ہیں۔

تاہم خاص طور پر اس جگہ یعنی عرفات کے میدان میں دعا اور ذکر کرتے ہوئے اخلاص، حاضر قلبی، اور خوف و امید کی ملی جلی کیفیت طاری ہونا شرعی طور پر مطلوب ہے، اور یہاں  بلند آواز سے تلبیہ اور ذکر کرنا بھی شرعی عمل ہے؛ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے اس طرح سے عملی طور پر کیا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بہترین  دعا یومِ عرفہ کی دعا ہے، اس دن میں سب سے بہترین ذکر جو میں اور مجھ سے پہلے آنے والے نبیوں نے کیا ہے وہ یہ ہے: "لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اسی کیلیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)

 لیکن عرفات کے دن میں اجتماعی دعا کرنے کی مجھے کوئی دلیل معلوم نہیں ہے، اس لیے محتاط عمل یہی ہے کہ اجتماعی دعا نہ کی جائے؛ کیونکہ میرے علم کے مطابق عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام سے ایسا عمل ثابت نہیں ہے، تاہم اگر کوئی انسان لوگوں کے مجمعے میں دعا مانگے اور بقیہ اس کی دعا پر آمین کہیں  تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بالکل ایسے ہی جس طرح دعائے قنوت ، یا دعائے ختم القرآن یا دعائے استسقا وغیرہ میں ہوتا ہے، (یعنی: اس میں بھی ایک آدمی دعا کرتا ہے اور بقیہ اس پر آمین کہتے ہیں۔ مترجم)

لیکن عرفہ کے دن میدان عرفات میں یا کسی اور جگہ صرف اسی نیت سے جمع ہونے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل نہیں  ملتی۔

جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ: (جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے) اس روایت کو امام مسلم  نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے۔

اللہ تعالی عمل کی توفیق دینے والا ہے۔"

واللہ اعلم.

"مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (17/272)

ماخذ: الاسلام سوال و جواب