الحمد للہ.
"عمرے یا حج کی نیت سے میقات پہنچنے والے کیلیے غسل کرنا اور خوشبو لگانا مستحب ہے؛ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے احرام کی نیت کرتے ہوئے سلا ہوا لباس اتار دیا اور غسل فرمایا۔
نیز صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ کہتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کی نیت کرنے سے پہلے خوشبو لگایا کرتی تھی اور بیت اللہ کا طواف [افاضہ] کرنے سے پہلے [تحلل اول کے بعد ] خوشبو لگایا کرتی تھی"
[غسل کے مستحب ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ کو حیض آنے پر حکم دیا تھا کہ غسل کر کے حج کی نیت کر لیں حالانکہ انہوں نے پہلے عمرے کی نیت کی ہوئی تھی۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو ذو الحلیفہ میں زچگی کے بعد حکم دیا تھا کہ غسل کر لیں اور کپڑے کا لنگوٹ کس کے باندھ لیں اور احرام کی نیت کر لیں۔
تو ان سب باتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حائضہ یا نفاس والی عورت میقات پر پہنچے تو غسل کر کے اپنے قافلے والوں کے ہمراہ احرام کی نیت کر لے، پیچھے نہ رہے اور بیت اللہ کے طواف کے علاوہ بقیہ تمام کام کرے جو حجاج کرتے ہیں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ اور اسماء کو ایسے ہی کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا۔
اسی طرح احرام باندھنے والا شخص اگر ضرورت ہو تو اپنی مونچھیں، ناخن، زیرِ ناف بال اور بغلیں بھی صاف کر لے ؛ تا کہ انہیں احرام کی حالت میں کاٹنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کا خیال رکھنے کا حکم عام حالات میں بھی دیا ہے، جیسے کہ صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانچ چیزیں فطرت میں شامل ہیں: ختنہ کرنا، زیر ناف بال اتارنے کیلیے استرا استعمال کرنا، مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا)
اور صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ: "ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشنے، بغلوں کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کا وقت مقرر کرنے کیلیے کہا گیا تھا کہ: ہم انہیں چالیس دنوں سے زیادہ نہ چھوڑیں"
جبکہ یہی روایت سنن نسائی میں ان لفظوں کے ساتھ ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے وقت مقرر فرمایا تھا) یہی الفاظ سنن ابو داود، مسند احمد اور ترمذی میں بھی موجود ہیں۔
احرام باندھتے وقت سر کے بال نہیں کاٹنے چاہییں یہ مرد و خواتین سب کیلیے صحیح نہیں ہے۔
جبکہ ڈاڑھی مونڈنا یا تراشنا ہر وقت حرام ہے، چنانچہ ڈاڑھی کو معاف کرنا اور چھوڑ دینا واجب ہے؛ کیونکہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھی کو بڑھاؤ، نیز مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو)
صحیح مسلم میں ہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مونچھیں کاٹو، داڑھی بڑھاؤ اور مجوسیوں کی مخالفت کرو)
لیکن آج کل یہ بیماری بہت زیادہ پھیل چکی ہے کہ لوگ اس سنت کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ داڑھی کے ساتھ لوگوں کو دشمنی ہے، لوگ کافروں جیسی اور نسوانی شکل بنانا پسند کر رہے ہیں، ان میں ایسا طبقہ خصوصاً شامل ہے جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور پڑھا لکھا سمجھتا ہے، -انا للہ وانا الیہ راجعون -۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو ہدایت دے، سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، اگرچہ اس وقت بہت سے لوگ سنت سے بیزار ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالی ہمیں سنت کا داعی بنائے۔ اس کی توفیق دینے کیلیے اللہ تعالی ہمیں کافی ہے وہ بہترین کار ساز ہے۔ نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت بلند و بالا اللہ تعالی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
پھر مرد حضرات تہہ بند اور اوپر کی چادر اپنے جسم پر لے لیں ، تاہم مستحب ہے کہ سفید اور صاف ستھری چادریں ہوں، اسی طرح احرام کی حالت میں جوتے پہننا بھی مستحب ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ تہہ بند، اوپر والی چادر اور جوتے پہن کر احرام کی نیت کرے) اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
خواتین سیاہ، سبز یا دیگر کسی بھی رنگ کے لباس میں احرام کی نیت کر سکتی ہیں، لیکن خیال کریں کہ ان کا احرام مردوں جیسا نہ ہو، اسی طرح خواتین کیلیے احرام کی حالت میں نقاب، یا دستانے پہننا جائز نہیں ہے، البتہ اپنا چہرہ اور ہاتھ نقاب اور دستانوں کے بغیر ڈھانپ لے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن بعض عوام الناس خواتین کیلیے سیاہ یا سبز رنگ کے کپڑوں میں احرام کی پابندی لگاتے ہیں یہ بے بنیاد بات ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
غسل، صفائی ستھرائی اور احرام پہننے کے بعد دل سے حج یا عمرے کے احرام کی نیت کرے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے، اور شخص کیلیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی)
نیز دل سے کئی ہوئی نیت کو لفظوں میں بھی بیان کر ے چنانچہ اگر عمرے کی نیت ہے تو کہے: "لَبَّيْكَ عُمْرَةً"یا یہ کہے کہ: "اَللَّهُمَّ لَبَّيْكَ عُمْرَةً " اور اگر اس کا ارادہ حج کا ہے تو کہے: "لَبَّيْكَ حَجًّا"یا یہ کہے کہ: "اَللَّهُمَّ لَبَّيْكَ حَجًّا " اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا۔
اور اگر حج و عمرے دونوں کی اکٹھی نیت کرنی ہے تو کہے: "اَللَّهُمَّ لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا " ۔
نیت کیلیے افضل یہ ہے کہ اپنی سواری پر سوار ہو کر کرے چاہے سواری کوئی جانور ہو یا گاڑی وغیرہ؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ اور احرام کی نیت اپنی سواری پر چڑھ کر ہی کی تھی ، پھر آپ کی سواری میقات سے چلنے کیلیے کھڑی ہوئی تھی، اہل علم کے اقوال میں سے صحیح ترین یہی موقف ہے۔
نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا صرف احرام کی حالت میں جائز ہے؛ کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، البتہ نماز، طواف اور دیگر عبادات کی نیت زبان سے ادا نہیں کی جائے گی، چنانچہ نماز پڑھتے ہوئے کہنا: "میں فلاں فلاں نماز ادا کرنے کی نیت کرتا ہوں" یا طواف کرتے ہوئے کہے: "میں فلاں طواف کرنے کی نیت کرتا ہوں" یہ خود ساختہ بدعت ہے، اور اگر نیت بلند آواز سے کی جائے تو یہ مزید سنگین اور قبیح ہے؛ کیونکہ اگر زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لوگوں کیلیے ضرور بیان کرتے، اپنے عمل یا حکم سے امت کیلیے ضرور واضح فرماتے، نیز سلف صالحین بھی اس پر بڑھ چڑھ کر عمل کر کے دیکھاتے۔
لہذا چونکہ نیت کے الفاظ زبان سے ادا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ: (بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) یہ حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (جو شخص ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز شامل کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے) اس حدیث کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
جبکہ اسی روایت کے صحیح مسلم میں الفاظ
یوں ہیں:
(جس نے کوئی بھی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں تھا تو وہ مردود ہے) "انتہی
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ.