سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا قبر كے پاس وعظ و نصيحت كرنى مشروع ہے ؟

12833

تاریخ اشاعت : 23-03-2008

مشاہدات : 8719

سوال

قبر كے پاس وعظ و نصيحت كرنے كا حكم كيا ہے ؟
ہم نے سنا ہے كہ كچھ كہتے ہيں كہ يہ نبى صلىاللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، اور كچھ كہتے ہيں كہ يہ سنت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ كو جو يہ بات پہنچى ہے كہ مطلق طور پر ثابت نہيں يہ بات صحيح نہيں ہے، اور اسے سنت كہنے والا قول بھى صحيح نہيں.

اس كى وجہ يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں كہ جب جنازہ آتا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم قبر كے پاس كھڑے ہو كر يا قبرستان ميں كھڑے ہو كر وعظ و نصيحت كرتے اور خطبہ ديتے، گويا كہ وہ خطبہ جمعہ دے رہے ہوں.

ہم نے تو يہ نہيں سنا، اور يہ بدعت ہے، بلكہ ہو سكتا ہے مستقبل ميں يہ اس سے بھى بڑى چيز تك لے جائے، اور ہو سكتا ہے كہ يہ كلام كرنے والے كو اس حاضر ميت كے حوالے بات كرنے كى طرف لے جائے، اور وہ اس طرح كہنا شروع كردے:

مثلا اگر وہ شخص فاسق ہو، پھر وہ لوگوں كو يہ كہنا شروع كرے كہ ديكھو يہ شخص كل كھيلا كرتا تھا، اور كل مذاق كرتا پھرتا تھا، اور يہ يہ كہتا تھا، اور اب وہ اپنى قبر ميں رہن پڑا ہے.

يا مثلا وہ كسى تاجر شخص كے متعلق بات كرتا ہوا كہے: ديكھو فلا شخص كل محلات اور گاڑيوں ميں گھومتا تھا اور اس كے آگے پيچھے نوكر چاكر تھے، اور اب وہ اپنى قبر ميں ہے.

اس ليے ہمارا خيال ہے كہ وعظ و نصيحت كرنے والا قبرستان ميں خطبہ نہ دينا شروع كردے كيونكہ يہ سنت نہيں ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب دفن سے فارغ ہوتے تو وہ كھڑے ہو كر وعظ و نصيحت نہيں كرتے تھے اور نہ ہى جب وہ دفن كے انتظار ميں ہوتے تو كھڑے ہو كر ہميشہ خطبہ ديتے، اور نہ ہى سابقين الاولين نےايسا كام كيا، حالانكہ وہ سنت كے زيادہ قريب تھے، اور نہ ہى اس سے قبل صحابہ كرام ميں سے خلفاء راشدين نے ايسا كام كيا اور ہميں بتايا.

لہذا نہ تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كےدور ميں اور نہ ہى عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما كے دور خلافت ميں اور نہ ہى على رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت ميں يہ كام كرتے رہے، اور سب سے بہتر طريقہ تو وہى ہے جس پر سلف نے عمل كيا جبكہ وہ حق كے موافق ہو.

ليكن وہ وعظ و نصيحت جو مجلس كى كلام شمار ہوتى ہو تو اس ميں كوئى حرج والى بات نہيں، كيونكہ سنن ميں ثابت ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم قبرستان بقيع كى طرف گئے يا بقيع ميں آئے اور اس ميں لوگ ايك ميت كو دفن كر رہے تھے، ليكن ميت كى لحد ابھى تيار نہيں ہوئى تھى، يعنى ابھى وہ قبر كھود رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيٹھ گئے اور آپ كے ارد گرد صحابہ كرام بھى بيٹھے ہوئے تھے، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں انسان كى موت كے وقت اور انسان كے دفن ہونے كے بعد كى حالت بيان بڑے دھيمے انداز ميں بيان كرنا شروع كى نہ كہ خطبہ اور تقرير كى طرح.

اور اسى طرح صحيح بخارى وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے ہر ايك شخص كا ٹھكانہ جہنم ميں بھى اور جنت ميں بھى لكھا جا چكا ہے.

تو صحابہ كرام نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو پھر ہم كيوں نہ توكل كر كے بيٹھ رہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نہيں، عمل كرو، كيونكہ جس كے ليے وہ پيدا ہوا ہے وہ اس كے ليے آسان ہے"

حاصل يہ ہوا كہ دفن كے وقت يا دفن كے بعد انسان كھڑے ہو كر تقرير اور وعظ و نصيحت كرنا شروع كردے يہ سنت نہيں ہے، اور آپ نے جو جانا ہے وہ بھى اس لائق نہيں، ليكن وہ نصيحت جو تقرير كى شكل ميں ہو مثلا انسان بيٹھا ہوا اور اس كے ساتھى بھى ساتھ ہوں اور وہ اس جگہ كى مناسبت سے بات كرے تو يہ بہتر اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتداء بھى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال وجواب