الحمد للہ.
ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ واجب نہيں بلكہ منگنى كرنے والے شخص كا عورت كو اور عورت كا مرد كو ديكھنا مباح ہے، كيونكہ يہ چيز محبت پيدا ہونے كے زيادہ قريب ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منگنى كرنے والے شخص كو عورت ديكھنے كا كہا تھا، اس ليے اگر وہ اس كے سامنے اپنا چہرہ اور ہاتھ اور سر سے پردہ اتار كر آتى ہے تو صحيح يہى ہے كہ اس ميں كوئى حرج نہيں.
بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ: چہرہ اور ہاتھ ہى كافى ہيں ليكن صحيح يہى ہے كہ سر اور پاؤں ديكھنے ميں بھى كوئى حرج نہيں تا كہ اس كے محاسن مكمل ہو جائيں.
اسى طرح عورت كو بھى حق حاصل ہے كہ وہ مرد كو ديكھ لے؛ كيونكہ يہ چيز ان دونوں ميں محبت پيدا كرنے كا باعث ہے جيسا كہ حديث ميں آيا ہے.
ليكن يہ خلوت كے بغير ہونا چاہيے، بلكہ عورت كے ساتھ اس كا والد يا بھائى يا پھر كوئى اور عورت ہو، مرد اس كے ساتھ خلوت نہ كرے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1522 ).
آپ مزيد فائدہ كے حصول كے ليے سوال نمبر ( 2527 ) اور ( 102369 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .