الحمد للہ.
عورت كے ليے زينت صرف ان افراد كے سامنے ہى ظاہر كرنا جائز ہے جن كا اللہ سبحانہ و تعالى نے درج ذيل فرمان ميں ذكر كيا ہے:
اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے يا اپنے والد كے يا اپنے سسر كے يا اپنے لڑكوں كے، يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے، يا اپنے بھائيوں كے يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں نہ مار كر نہ چليں كہ ان كى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں! تم سب كے سب اللہ كى جناب ميں توبہ كرو تا كہ تم نجات پاؤ النور ( 31 ).
اور منگيتر ان افراد ميں شامل نہيں ہے، بلكہ اس كے ليے تو صرف ديكھنا مباح كيا گيا ہے تا كہ وہ منگنى كرے، اور اس كے ليے عورت ميك اپ كر كے نہيں آ سكتى يہ اس كے ليے جائز نہيں ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" منگنى كرنے كے ليے عورت كو ديكھنا جائز ہے اور لڑكا كچھ شروط كے ساتھ لڑكى ديكھ سكتا ہے:
پہلى شرط:
اسے ديكھنے كى ضرورت ہو، اگر ديكھنے كى ضرورت نہيں تو پھر اصل ميں مرد كے ليے اجنبى عورت كو ديكھنا ممنوع ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آپ مومن مردوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں، اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں .
دوسرى شرط:
وہ منگنى كرنے كا عزم ركھتا ہو، اگر متردد ہے تو پھر نہيں ديكھ سكتا، ليكن جب وہ عزم كر لے تو ديكھ لے، پھر يا تو وہ اس سے رشتہ طے كر لے يا پھر چھوڑ دے.
تيسرى شرط:
بغير كسى خلوت سے عورت كو ديكھا جائے، يعنى شرط ہے كہ لڑكى كے ساتھ اس كا محرم موجود ہو يا تو اس كا والد يا بھائى يا چچا يا ماموں، اس ليے كہ كسى اجنبى عورت كے ساتھ بھى خلوت كرنا حرام ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى شخص بھى كسى عورت كے ساتھ خلوت مت كرے مگر يہ كہ اس كے ساتھ عورت كا محرم ہو "
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو، صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم خاوند كے رشتہ دار مرد كے متعلق بتائيں:
آپ نے فرمايا: " ديور " يہ تو موت ہے "
چوتھى شرط:
ديكھنے والے كا ظن غالب ہو كہ لڑكى اور اس كے گھر والے رشتہ قبول كريں گے، اگر اس كا ظن غالب يہ نہ ہو تو پھر لڑكى كو ديكھنے كا كوئى فائدہ نہيں؛ كيونكہ اس عورت سے نكاح تو ہو نہيں سكتا چاہے وہ اسے ديكھے يا نہ ديكھے.
بعض علماء كرام نے يہ بھى شرط لگائى ہے كہ: ديكھتے وقت اس كى شہوت ميں حركت نہ ہو، بلكہ اس كا مقصد صرف معلومات حاصل كرنا ہوں، اور اگر شہوت ميں ہيجان پيدا ہو گيا تو اسے نہيں ديكھنا چاہيے، اس ليے كہ عقد نكاح سے قبل عورت سے لذت حاصل كرنا صحيح نہيں، اس ليے اسے ايسا كرنے سے باز رہنا چاہيے.
پھر اس حالت ميں ضرورى ہے كہ عورت عام حالت ميں آئے يہ نہيں كہ ميك وغيرہ كر كے اور خوبصورت بن كر سامنے آئے، كيونكہ ابھى وہ اس كى بيوى نہيں بنى، پھر اگر وہ خوبصورت لباس زيب تن كر كے بن سنور كر آئيگى تو پہلى نظر ميں ہى انسان اس سے نكاح كا اقدام كر بيٹھےگا، اور پھر جب اصل حقيقت ميں آئيگى تو ہم ان ميں اختلاف پائيں گے وہ نہيں ہوگى جو پہلى بار ديكھى تھى " انتہى
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.
شيخ رحمہ اللہ نے ايك دوسرے مقام پر اس طرف اشارہ كيا ہے كہ: اس كا نتيجہ برعكس نكلے، كيونكہ جب اس نے اسے ديكھا تھا تو اس نے ميك اپ كر كے خوب بن سنور كر سامنے آئى تھى تو وہ اسے خوبصورت حقيقت اور اصل سے زيادہ خوبصورت تصور كر رہا تھا، اور جب اس كى رخصتى ہوگى اور وہ اسے بغير ميك اپ كے ديكھے گا تو وہ واقع كے مطابق نہيں اس طرح وہ اس سے بے رغبتى كرنےلگےگا.
حاصل يہ ہوا كہ: جب رشتہ كے ليے اسے كوئى شخص ديكھنے آئے تو عورت كے ليے چہرہ اور ہاتھ ننگے كرنا جائز ہيں، اور اسى طرح سر بھى ننگا كر سكتى ہے، اور جو غالبا ظاہر ہوتا ہے، راجح يہى ہے، ليكن اس كے علاوہ وہ ميك اپ وغيرہ كرے اور خوب بن سنور كر آئے يہ نہيں ہو سكتا.
واللہ اعلم .