اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

کھیل اور گیم کے طور پر مچھلیوں کا شکار کرنے کا حکم

سوال

کیا بطور گیم مچھلیوں کا شکار کرنا جائز ہے؟ واضح رہے کہ ہم شکار کی ہوئی مچھلی کو ضائع نہیں کریں گے نہ ہی شکار کو تنگ کریں گے، ہم شکار کر کے مچھلی کھائیں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بنیادی طور پر شکار کرنا مباح عمل ہے، صرف احرام کی حالت میں یا حدود حرم میں شکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ زمینی شکار کا حکم ہے۔ جبکہ مچھلی وغیرہ کا سمندری شکار تو احرام کی حالت میں بھی جائز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
 ترجمہ: تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔ تم بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اور قافلے والے اسے زاد راہ بھی بنا سکتے ہیں۔ البتہ جب تک حالت احرام میں ہو تو خشکی کا شکار تمہارے لیے حرام کیا گیا ہے اور اللہ (کے احکام کی خلاف ورزی کرنے) سے بچتے رہو جس کے حضور تم جمع کئے جاؤ گے۔ [المائدہ: 96]

چنانچہ اگر کوئی شخص مباح جانوروں کا شکار مباح نیت سے کرے، مثلاً: بیچ کر کمانے کی نیت سے، یا کھانے کی نیت سے تو پھر ایسے جانور کے شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس پر تمام علمائے کرام کا اتفاق ہے۔

یہی حکم اس شخص کا ہو گا جو مچھلی کا شکار بنیادی طور پر کسی مباح مقصد سے کرنا چاہتا ہے مثلاً: وقت پاس کرنے کے لیے یا تفریح وغیرہ کے لیے ۔ لیکن شکار کے ذریعے حاصل ہونے والی مچھلی کو فروخت کر کے یا کھا کر یا کسی اور انداز سے فائدہ اٹھائے گا تو پھر بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوم:

اگر شکاری کو شکار کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، وہ محض بطور مشغلہ یا گیم شکار کرنا چاہتا ہے تو پھر اس حالت میں شکار کا حکم مباح سے مکروہ ہو جائے گا۔

جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (28/115) میں ہے کہ:
"جب یہ معلوم ہو گیا کہ شکار کا بنیادی حکم مباح ہے تو اب شکار کے بارے میں یہ کہنے کے لیے کہ شکار خلاف اولی ، یا حرام ، یا مستحب ، یا واجب ہے؛ یہ مخصوص صورتوں اور خاص دلیل کے ساتھ ہی ممکن ہو گا، یہ صورتیں اور دلائل ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں:
۔۔۔اگر شکار کا مقصد صرف کھیل اور فضول میں جانوروں کو تنگ کرنا ہے تو یہ مکروہ ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس چیز میں روح ہو اس پر نشانہ بازی نہ کرو) مسلم: (1957)" ختم شد

متعدد اہل علم نے اس حالت میں شکار مکروہ ہونے کی واضح لفظوں میں صراحت کی ہے۔

چنانچہ مالکی فقیہ نفراویؒ کہتے ہیں:
"فضول میں جانور کا شکار کر کے ذبح کر دینا مکروہ تنزیہی ہے۔" ختم شد
"الفواكه الدواني" (1/390)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ضرورت پڑنے پر شکار کرنا جائز ہے، لیکن ایسا شکار جس کا کوئی مقصد نہ ہو فضول میں جاندار کا شکار کیا جائے تو یہ مکروہ ہے۔ اور اگر شکار سے لوگوں پر ظلم ہوتا ہو، ان کی فصلوں اور مال کو نقصان ہوتا ہو تو ایسی صورت میں شکار حرام ہے۔" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (5/550)

الشیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فضول میں شکار کرنا مکروہ ہے؛ کیونکہ یہاں شکار کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ اور اگر شکار کی وجہ سے لوگوں پر ظلم ہو، ان کی فصلوں اور مال کو نقصان پہنچے تو پھر شکار کرنا حرام ہو گا؛ کیونکہ وسائل ؛اہداف کا حکم رکھتے ہیں۔" ختم شد
"كشاف القناع" (6/213)

ابن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجمع الفتاوی میں ہے کہ لہو و لعب کے طور پر شکار مکروہ ہے۔" ختم شد
"رد المحتار" (5/297)

سوم:
اگر شکار کرنے کا مقصد لہو و لعب اور گیم ہے لیکن شکار سے حاصل ہونے والے جانور کو کھا کر یا فروخت کر کے یا تحفۃً دے کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے گا تو پھر یہاں مکروہ ہونے کی مذکورہ وجہ زائل ہو جائے گی ، اور شکار کا بنیادی حکم مباح ہونا واپس ہو جائے گا؛ کیونکہ یہاں شکار فضول نہیں رہا، نہ ہی اس میں جاندار کی مالیت کو کوئی نقصان ہے، اور نہ ہی جانور کو عذاب دیا جا رہا ہے۔

الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فضول میں کسی جاندار کو جان سے مارنا شرعاً جائز نہیں ہے، مثلاً: گاڑیوں پر سوار ہو کر شکار پر گولیاں برسائی جائیں، اور مقصد یہ نہ ہو کہ انہیں کھانا ہے یا کسی اور کو کھلانا ہے۔ تو یہ اچھا عمل نہیں ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ: (جس نے کسی چڑیا کو بھی بغیر وجہ کے قتل کیا تو اس سے پوچھا جائے گا۔) " ختم شد
"فتاوى و رسائل محمد بن ابراہیم آل شیخ" (12/231)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر شکار کسی شرعی مصلحت کی وجہ سے ہو کہ وہ کھانا چاہتا ہے، یا فروخت کرنا چاہتا ہے، مثلاً: شکار کر کے پرندے، ہرن اور خرگوش وغیرہ جیسی مباح چیزوں کو کھاتا ہے یا فروخت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر شکار کر کے شکار کو ایسے ہی چھوڑ دیتا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے، اس کا کم از کم حکم نہایت مکروہ ہے۔ لہذا ایسا جاندار جس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے اس کا شکار کسی مصلحت کی وجہ سے ہی کرے کہ شکار کر کے خود کھائے یا دوسروں کو کھلائے یا کسی کو تحفۃً دے دے، یا فروخت کر دے۔ محض کھیل کے لیے شکار کرے تو یہ جائز نہیں ہے۔ مومن شخص ایسا کھیل مت کھیلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھانے کے لیے ہی شکار کرنے کی اجازت دی ہے، یعنی شکار کر کے اس سے فائدہ اٹھایا جائے، ضائع نہ کیا جائے۔" ختم شد
ماخوذ از شیخ ابن باز ویب سائٹ

خلاصہ یہ ہوا کہ:
سوال میں مذکور صورت میں شکار کرنا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب تک شکار کو کھا کر، یا فروخت کر کے یا کسی اور انداز سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے تو شکار کرنا جائز ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب