الحمد للہ.
اول:
شريعت اسلاميہ نے خاوند پر اپنى بيوى كا نان و نفقہ بہتر طريقہ اور اس كى وسعت و طاقت كے مطابق واجب كيا ہے، اور بيوى چاہے مالدار بھى ہو اس پر اپنے اخراجات لازم نہيں كيے، ليكن اگر وہ اپنى راضى و خوشى سے كرنا چاہے تو خاوند سے حسن سلوك اور رحمدلى ميں شامل ہوگا، وہ كر سكتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمايا:
" تم عورتوں كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا تقوى اختيار كرو.... اور ان عورتوں كے تم پر ان نان و نفقہ اور لباس بہتر طريقہ سے ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
اس حديث كى شرح كرتے ہوئے امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں بيوى كے نان و نفقہ اور لباس كے وجوب كى دليل پائى جا تى ہے، اور يہ اجماع سے ثابت ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 8 / 184 ).
اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 3054 ) كے سوال ميں ديكھ سكتے ہيں.
دوم:
خاوند كے ليے بيوى كى رضامندى كے بغير بيوى كى تنخواہ اور مال لينا جائز نہيں، اگر وہ بيوى كى رضامندى كے بغير ليتا ہے تو يہ حرام ہوگا.
آپ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 112032 ) كا مطالعہ كريں، اور ان طرح كے مسائل ميں خاوند اور بيوى كو جو نصيحت كى جاتى ہے اسے جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 126316 ) كا مطالعہ كريں.
سوم:
اگر خاوند اپنے مال سے بيوى پر اچھے طريقہ سے خرچ كرتا ہے تو بيوى كو كوئى حق حاصل نہيں كہ وہ خاوند كے مال كى مقدار اور جمع كرنے كے متعلق دريافت كرتى پھرے، كہ وہ كس طرح مال خرچ كرتا ہے اور اس كے اخراجات كيا ہيں.
چہارم:
جب بيوى اپنى تنخواہ گھر كے افراد پر كرتى ہو تو بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے مال كے متعلق پوچھ سكتى ہے كہاں خرچ وا اور گھريلو اخراجات ميں اس كى مقدار كيا ہے.
يہاں اس صورت ميں اور بھى تاكيد پيدا ہو جائيگى كہ اگر بيوى مطالبہ كرتے ہوئے دريافت كرتى ہے تو اس كے علم ميں لانا ضرورى ہے، اور اگر اسے نہ بتايا جائے تو اصل ميں اسے اخراجات كرنے سے ركنے كا حق حاصل ہے.
واللہ اعلم .