منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

جبرا مشت زنى والے شخص كا روزہ

سوال

ميں جو سوال اور فتوى دريافت كرنا چاہتا ہوں وہ كچھ عجيب و غريب ہے، ليكن اس مسئلہ كا شكار شخص اس ميں شرعى حكم معلوم كرنا چاہتا ہے، برائے مہربانى آپ ہميں اس كا جواب ضرور ديں، كيونكہ يہ معاملہ واقعتا ہوا اور ہو رہا ہے چاہے آپ اس مسئلہ كے واقعتا ہونے پر مطمئن نہ بھى ہوں تو بھى برائے مہربانى جواب ضرور ديں:
يہ شخص روزہ توڑنے پر مجبور ہے، قصہ يہ ہے كہ ميرا ايك دوست كئى برس سے جادو كا شكار ہے، حالانكہ وہ حافظ قرآن بھى ہے، رمضان المبارك ميں وہ اجبارى طور پر بلكہ رمضان كے اكثر ايام ميں جس جن كا اس پر مسلط كيا گيا وہ اسے كبھى كسى طريقہ اور كبھى كسى طريقہ سے منى خارج كرنے پر مجبور كرتا ہے.
حالانكہ ميرا دوست اس سے باز رہنے اور ركنے كى كوشش كرتا ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، اور كئى برس سے رمضان ميں يہى ہوتا جا رہا، دن كا باقى حصہ وہ بغير كھائے پيئے ہى گزارتا ہے، اور جب وہ ان ايام كى قضاء ميں روزہ ركھتا ہے تو بھى جادو كى وجہ سے وہى صورت بن جاتى ہے اور وہ روزہ نہيں ركھ سكتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو اس بھائى كا حال واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے بيان كيا ہے تو اس كا حكم روزہ توڑنے پر مجبور كيے جانے والے شخص كا ہے.

شافعيہ اور حنابلہ كا مسلك يہ ہے كہ جس شخص كو وطئ يا كھانے پينے پر مجبور كيا جائے اور وہ جبرا ايسا كرے تو اس كا روزہ نہيں ٹوٹےگا، اور اس پر قضاء بھى نہيں ہوگى.

ليكن شافعى حضرات كے ہاں جبرا زنا كے ساتھ روزہ توڑنے والے شخص پر قضاء ہو گى "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 58 ).

يہ قول ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت كے زيادہ قريب ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے بھول چوك اور غلطى اور جس پر انہيں مجبور كر ديا جائے معاف كر ديا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2045 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے مشكاۃ كى تخريج ( 6248 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ اكراہ يعنى مجبور كرنے ميں اختيار منعدم ہو جاتا ہے، اور يہ چيز بھولنے سے بھى زيادہ سخت ہے، راجح قول كے مطابق بھولنے والے كا روزہ نہيں ٹوٹتا، اور پھر روزہ توڑنے پر جبر تو كلمہ كفر كہنے پر مجبور كرنے سے كم درجہ ركھتا ہے، كيونكہ جو كوئى مجبورا كفريہ كلمہ كہے تو وہ كافر نہيں ہوتا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ كہتے ہيں:

" جس كسى كو بھى روزہ توڑنے والى اشياء پر مجبور كر ديا جائے اور وہ اسے سرانجام دے تو اس پر كوئى گناہ نہيں اس كا روزہ صحيح ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ليكن جو تمہارے دل جان بوجھ كر عمدا كريں، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے .

اور اس ليے بھى كہ مجبورا كلمہ كفريہ ادا كرنے والے سے كفر كا حكم اٹھا ليا گيا ہے، تو اس سے كم درجہ والى چيز ميں تو بالاولى حكم نہيں لگے گا.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرى امت سے بھول چوك اور غلطى اور جس پر انہيں مجبور كرديا گيا ہو معاف كر ديا گيا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 19 / 207 ).

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كے ساتھى كو شفايابى و عافيت نصيب فرمائے، اور ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اسے شرعى دم كرنے كا اہتمام كيا جائے، اور كثرت سے دعا اور صدقہ و خيرات كريں.

كيونكہ يہ كام شفايابى و مصيبت كو دور كرنے كے اسباب ميں شامل ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ صبر و تحمل كى تلقين كرتے ہوئے اسے كہيں كہ وہ اجروثواب كى نيت ركھے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندے كو جس طرح چاہے آزمائش ميں مبتلا كر ديتا ہے تا كہ اس كے گناہ كا كفار بن سكے، يا اس كے درجات بلند ہوں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى مسلمان شخص كو جو كوئى مصيبت اور تكليف و اذيت اور غم و پريشانى آتى ہے حتى كہ اسے جو كانٹا لگتا ہے اس كے بدلے اللہ تعالى اس كے گناہ معاف كرتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5642 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2573 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب