جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دائیں ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو وضو اور نماز کے لیے کیا کرے؟

سوال

دایاں ہاتھ ٹوٹنے کی وجہ سے ہاتھ پر پلستر چڑھا ہوا ہے تو وضو اور نماز جیسے دینی فرائض کیسے ادا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر کسی شخص میں دائیں ہاتھ کو حرکت دینے کی سکت نہیں ہے، تو وہ درج ذیل شرعی امور کی پابندی لازمی کرے:

اول:

دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے واجب غسل اور وضو ساقط نہیں ہوں گے؛ کیونکہ وہ بائیں ہاتھ کو استعمال کر کے غسل اور وضو کر سکتا ہے، اسی طرح وضو اور غسل میں جن اعضا کو دھونا لازمی ہے ان تک پانی بھی پہنچا سکتا ہے، وضو اور غسل کرتے وقت مکمل دھیان سے اعضا دھوئے تا کہ طہارت اچھی طرح حاصل ہو سکے۔

دوم:

وضو اور غسل کرتے وقت دائیں ہاتھ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ پٹی پر اتنا مسح کریں کہ پٹی خراب نہ ہو، نیز مسح صرف ایک بار ہو گا، بار بار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہاں دھونے والے اعضا بار بار [زیادہ سے زیادہ تین بار تک] دھوئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح ان شاء اللہ وضو بھی ٹھیک ہو گا اور غسل بھی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ اگر دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھلی ہوئی ہیں، یا کہنی پر پٹی نہیں بندھی ہوئی تو لازمی طور پر کہنی اور انگلیوں کو دھونا پڑے گا، اس صورت میں انگلیوں یا کہنی پر مسح کافی نہ ہو گا، مسح صرف اسی جگہ پر ہو گا جہاں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پٹی ہتھیلی پر بندھی ہوتی ہے جبکہ انگلیوں پر پٹی نہیں ہوتی تو ایسے میں انگلیوں کو دھونا ضروری ہے اور پٹی پر مسح کیا جائے گا، اسی طرح معاملہ پاؤں کے متعلق ہے کہ اگر انگلیاں عیاں ہوں ان پر پٹی نہ ہو تو انگلیاں دھوئی جائیں گی جبکہ پٹی پر مسح کیا جائے گا۔" ختم شد
" اللقاء الشهری " (61/ 27) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

پٹی کا حکم مزید تفصیل کے ساتھ جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (69796)، (148062) اور (163853) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

نماز کے لئے یہ ہے کہ: دوران نماز دائیں ہاتھ کے اعمال درج ذیل ہیں:

  1. تکبیر تحریمہ، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھ کر ، اور درمیانے تشہد سے کھڑے ہوتے وقت چاروں تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا۔
  2. قیام کے دوران دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا۔
  3. سجدہ کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کا سہارا لینا۔
  4. تشہد میں دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھنا۔
  5. تشہد کے وقت شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا۔

ان تمام جگہوں میں آپ یا تو پٹی والے ہاتھ کو حرکت میں لائیں اور اگر ممکن ہو تو تمام افعال ادا کریں، تو یہ افضل اور بہتر ہے، لیکن اگر آپ مکمل طور پر ہاتھ کو حرکت نہ دے سکیں تو حسب استطاعت حرکت کے ساتھ افعال ادا کریں، تاہم اگر آپ بالکل بھی حرکت نہ دے سکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ آپ صرف بائیں ہاتھ کے ساتھ ہی ان تمام ارکان کو ادا کریں گے، البتہ دوران تشہد شہادت والی انگلی سے اشارہ صرف دائیں ہاتھ سے ہی ہو گا۔

مذکورہ بالا تمام امور کی دلیل دو عام فقہی قاعدے اور اصول ہیں، ان دونوں اصولوں کی تائید میں کتاب و سنت میں دسیوں دلائل موجود ہیں؛ ان میں سے پہلا قاعدہ یہ ہے کہ:
 المشقة تجلب التيسير یعنی "مشقت آسانی کا باعث بنتی ہے"

اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
 لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا 
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا۔ [البقرة: 286]

دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ:
الميسور لا يسقط المعسور یعنی " ممکن الحصول غیر ممکن الحصول کی وجہ سے ساقط نہیں ہو سکتا "

اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
 فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ  
ترجمہ: حسب استطاعت تقوی الہی اپناؤ۔ [التغابن: 16]

یہ ایک عظیم قاعدہ اور اصول ہے، یہاں تک کہ علمائے کرام اس کے بارے میں یہ کہتے ہیں "شریعت کا کوئی بھی بنیادی عمل ایسا نہیں ہے جس میں اس اصول کا اثر نہ ہو"
دیکھیں: " الأشباه والنظائر " از سیوطی (ص/293)

ایسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت میں یہ چیز بھر پور انداز میں موجود ہے کہ شرعی احکام استطاعت اور قدرت کے ساتھ مشروط ہیں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جناب عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (تم کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اگر استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل نماز ادا کرو)" بخاری: (1117)

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب نمازی شخص نماز کے کچھ واجبات مثلاً: قیام، قراءت، رکوع، سجدہ، ستر ڈھانپنا، یا قبلہ سمت رخ کرنا وغیرہ سے قاصر ہو تو جو فعل وہ نہیں کر سکتا وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔

اس پر وہی کام واجب ہو گا جس کے کرنے کا اس نے پختہ ارادہ کیا اور ارادہ کرنے کے بعد اس میں استطاعت بھی تھی۔ بلکہ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اوامر اور نواہی میں مشروط شرعی استطاعت کے متعلق صاحب شریعت نے صرف ممکنات مع مشقت کو ہی مد نظر نہیں رکھا بلکہ جہاں کہیں بھی بندے کو تعمیل حکم میں مشقت کا سامنا تھا تو بندے کو بہت سے احکامات میں عاجز اور قاصر کے درجے میں رکھا گیا، مثلاً: پانی کے ساتھ وضو، بیماری میں روزہ، نماز میں قیام اور دیگر معاملات میں اس چیز کو مد نظر رکھا ہے، تا کہ اللہ تعالی کے ان فرامین پر بھی عمل ہو:
 يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ 
ترجمہ: اللہ تعالی تمہارے بارے میں آسانی کا ارادہ رکھتا ہے، وہ تمہارے بارے میں تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔[البقرة: 185]

 وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ 
ترجمہ: اور اس نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ [الحج: 78]

 مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ 
ترجمہ: اللہ تم پر کوئی تنگی نہیں رکھنا چاہتا۔[المائدة: 6]

اور اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (بیشک تمہیں آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجا گیا ہے، تمہیں تنگی پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجا گیا) اختصار کے ساتھ ختم شد
" مجموع الفتاوى " (8/ 438 - 439)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب