جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

دم والی آیات پانی میں گھل جانے والے کاغذ پر لکھنے کا حکم

سوال

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا آیت الکرسی کسی کاغذ پر ایسی روشنائی سے تحریر کرنا جو کہ خالص زعفران سے تیاری کی گئی ہو اور کھانے کے قابل ہو ، یا پھر زعفران کے علاوہ کوئی اور کھانے کی چیز سے لکھ کر پھر روشنائی کو پانی میں گھول دیا جائے اور مریض کو پینے کے لیے پیش کریں، کیا یہ عمل درست ہے؟ میں نے سنا ہے کہ بعض سلف صالحین پانی کے برتنوں میں آیات لکھتے اور پھر اسے پانی سے دھو دیتے اور یہ پانی مریض کو پینے کے لیے دیتے تھے۔ اس وجہ سے میں اپنی ایک ایسی پراڈکٹ تیار کرنا چاہتا ہوں کہ جس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوں اور انہیں پانی میں گھول کر نوش کیا جا سکے۔

میں جانتا ہوں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس عمل کو ابن قیم رحمہ اللہ کے زاد المعاد میں موقف کی بنیاد پر جائز قرار دیا ہے۔

اور دوسری طرف ایک جاپانی ڈاکٹر "Masaru Emoto" نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا ہے پانی اپنے اندر آوازیں محفوظ کر سکتا ہے، مثلاً مثبت الفاظ پانی کے سامنے بولے جائیں تو اس کی وجہ سے پانی کے اندر تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، مثلاً: بسم اللہ کہنے کی پانی پر تاثیر ہوتی ہے، اسی طرح ان کے مطابق پانی کے برتنوں میں مثبت کلمات لکھ دئیے جائیں تو اس کی بھی یہ تاثیر ہو گی۔ اس لیے میں اس اصول کو قرآنی آیات کو پانی میں گھول کر پینے کے بارے میں لاگو کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ کاغذ پر آیات لکھنے کی بجائے طبی بنیادوں پر کوئی چیز تیار ہو جائے اور اسے پانی میں گھول کر نوش کر لیا جائے۔ مجھے ابھی تک اس کام کے جائز ہونے کا علم نہیں ہے، اس لیے مجھے بہت خوشی ہو گی اگر اس حوالے سے میری کوئی رہنمائی کر دے، اور اس کے بارے میں مثبت و منفی تمام دلائل بھی بتلا دے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

قرآن کریم اور مسنون دعاؤں کے ذریعے حصول شفا جائز ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
 ترجمہ: ہم مومنوں کے رحمت اور شفا یابی کا باعث قرآن نازل کرتے ہیں ، جبکہ اس سے ظالموں کا خسارہ ہی بڑھتا ہے۔[الإسراء:82]

قرآن کریم کے ذریعے شفا یابی کے لیے آپ درج ذیل امور پر عمل کر سکتے ہیں: خود تلاوت کریں، مریض پر دم کریں، یا پانی پر پڑھ کر مریض کو پلائیں، پڑھے ہوئے پانی سے مریض غسل کرے، یا کسی برتن وغیرہ پر لکھ کر اسے پانی میں گھول لیں اور اس پانی کو نوش کریں، یہ تمام باتیں سلف صالحین سے منقول ہیں۔

جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ "زاد المعاد" (4/170) میں نظر بد کا علاج دم کے ذریعے کرنے کے بارے میں کہتے ہیں:
"سلف صالحین کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ نظر بد سے متاثر شخص کو قرآنی آیات لکھ کر دی جائیں اور مریض انہیں پی لے۔ چنانچہ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ قرآن کریم کی آیات لکھ کر پانی میں گھول دی جائیں اور پھر اس پانی کو مریض نوش کرے۔" یہی بات ابو قلابہ سے بھی منقول ہے۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : انہوں نے ولادت میں تنگی محسوس کرنے والی خاتون کے لیے قرآنی آیات لکھ کر ، انہیں دھو کر پانی پلانا تجویز کیا تھا۔

ابو ایوب کہتے ہیں: انہوں نے ابو قلابہ کو دیکھا کہ انہوں نے قرآن کریم کی آیات لکھیں، پھر انہیں پانی سے دھو دیا، اور تکلیف میں مبتلا شخص کو وہ پانی پلا دیا۔ " ختم شد

چنانچہ آیات قرآنیہ کو تحلیل ہو جانے والے کاغذ پر زعفران وغیرہ سے لکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ کہ وہ پاک ہو، چاہے یہ ہاتھ سے لکھی جائیں، یا کسی آلے کی مدد سے لکھی جائیں، آلے سے لکھنے کی صورت میں یہ بھی شرط ہے کہ کوئی منفی عنصر نہ پایا جائے۔

الغرض قرآن کریم جس روشنائی کے ذریعے لکھا جائے وہ پانی میں حل ہو جائے، یہ درست نہیں ہو گا کہ کسی برتن یا آلے پر آیات کندہ کر دی جائے ، اور اس پر پانی بہا کر اس پانی کو نوش کریں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب