اتوار 24 ذو الحجہ 1445 - 30 جون 2024
اردو

کاروباری شراکت میں ایک شخص نے پیسہ لگایا اور دوسرے نے جگہ تیار کر کے سیٹ اپ لگا کر کام کرنا تھا؛ تو نقصان ہونے پر کس کے ذمے لگے گا ؟

سوال

میں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے تجارتی شراکت داری قائم کی، طریقہ کار یہ تھا کہ: دوست نے پیسہ لگانا تھا، میں نے جگہ تیار کر کے فراہم کرنی تھی اور کام بھی میں نے کرنا تھا۔ نفع اور نقصان دونوں میں برابر تقسیم ہونا تھا۔ لیکن جب کاروبار ختم ہوا تو جانوروں کے ریٹ گر جانے کی وجہ سے ہمیں تجارت میں نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ کے بیان کردہ فتوے کو دیکھا تو مجھے علم ہوا کہ خسارے کو ہم برابر تقسیم نہیں کریں گے، خسارہ اسی کا ہو گا جس کا سرمایہ ہو گا، تو اب ہم کیا کریں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اسے خسارے کی آدھی رقم دے دوں تا کہ اسے نقصان زیادہ نہ ہو۔ اور اگر ہم اس تجارتی منصوبے کو آگے لے کر چلنا چاہیں تو کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم مزید جانور خریدیں اور اس کے لیے پہلے منافع میں سے اصل سرمایہ کی رقم منہا کریں پھر بقیہ رقم کو منافع قرار دیں، گویا کہ ہمارا کاروبار ابھی ختم ہوا ہی نہیں تھا بلکہ تسلسل سے جاری ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شراکت داری میں اصول یہ ہے کہ: خسارہ رأس المال کے برابر ہوتا ہے جب کہ منافع باہمی اتفاق کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔

چنانچہ اگر دو لوگ اپنا مال شامل کر کے کاروباری شراکت قائم کرتے ہیں تو دونوں میں خسارہ ان کے سرمائے کے مطابق تقسیم ہو گا۔

اور اگر سرمایہ ایک شریک کا ہو، دوسرے کی محنت ہو تو پھر مالی خسارہ سرمایہ دار کا ہو گا، جبکہ محنت والے کی محنت ضائع ہو گی، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ دوسرا فریق عمداً سستی یا زیادتی نہ کرے، اگر کی تو وہ بھی مالی خسارے میں شامل ہو گا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (5/ 22)میں کہتے ہیں:
"کاروباری شراکت داری میں خسارہ ہر فریق پر اس کے سرمائے کی مقدار کے برابر ہو گا، چنانچہ اگر دونوں کے سرمائے کی مقدار برابر ہو تو خسارے میں بھی برابر کے شریک ہوں گے، اور اگر دونوں میں ایک تہائی کا تناسب ہو تو پھر خسارہ بھی ایک تہائی کے تناسب سے ہو گا۔ اس حوالے سے ہمیں اہل علم کے کسی اختلافی موقف کا علم نہیں ہے، یہی موقف امام ابو حنیفہ اور شافعی وغیرہ کا ہے۔۔۔۔
مضاربت کی صورت میں خسارہ صرف سرمایہ دار پر ہو گا، مزدوری کرنے والا خسارے میں شامل نہیں ہو گا؛ کیونکہ خسارے کا مطلب ہے کہ سرمائے میں کمی تو سرمائے میں کمی صرف سرمایہ دار کی ہی ہو گی۔ محنت کرنے والے کو خسارے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ لہذا خسارہ صرف سرمایہ دار پر ہی ہو گا۔ مضاربت میں دونوں صرف نفع میں شریک ہوتے ہیں۔" ختم شد

اور اگر آپ کے ساتھی نے اپنا سرمایہ لگایا، آپ نے جگہ اور جگہ کی تیاری اور محنت پیش کی، جگہ اور اس جگہ کی تیاری کی مزدوری آپ نے وصول نہیں کی تو:

اگر تو جگہ اور جگہ کی تیاری آپ نے بلا معاوضہ تجارت میں شامل کی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس صورت میں آپ خسارے میں شریک نہیں ہوں گے۔

اور اگر آپ دونوں نے اس چیز کا خیال رکھا چنانچہ جگہ کا کرایہ اور اس کی تیاری کے اخراجات بطور سرمایہ شامل کیے گئے : تو ایسے میں جگہ کا کرایہ دیکھا جائے گا کہ آپ نے اس شراکت میں سرمایہ اور محنت دونوں شامل کی ہیں تو پھر آپ اس شراکت داری میں ہونے والے نقصان میں اپنے سرمائے کے برابر شریک ہوں گے، جیسے کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

لہذا اگر آپ کے دوست نے 10 ہزار ڈالے تھے، اور جگہ کا کرایہ اور تیاری 2 ہزار کے برابر تھی تو آپ اس کاروبار میں 2 ہزار اور محنت کے ساتھ شریک تھے، اس صورت میں آپ نقصان کا پانچواں حصہ اٹھائیں گے؛ کیونکہ آپ کا سرمایہ دوست کے سرمائے کے مقابلے میں 20 فیصد یعنی پانچواں حصہ بنتا ہے۔

آپ کے دوست پر لازم ہو گا کہ جو اس نے زائد وصول کر لیا ہے آپ کو واپس کرے۔

اگر آپ چاہیں تو خسارے میں سے آدھے کی ذمہ داری خود لے لیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ آپ کی اپنی مرضی ہے اور اپنے دوست کے ساتھ ہمدردی اور احسان ہے۔

لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ آپ آئندہ کاروباری شراکت کے عہد میں اسے بطور شرط ذکر کریں۔

دوم:
اگر آپ اپنے تجارتی منصوبے کو جاری رکھنا چاہیں اور مزید جانور خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پہلے سابقہ منصوبے کو مکمل بند کریں، آپ کا دوست اور آپ دونوں ہی اپنا اپنا رأس المال لائیں اور نئے سرے سے معاہدہ یوں ہو کہ خسارے کی تقسیم سرمایہ کاری کے مطابق ہو گی۔

ہم پہلے منصوبے کو بند کرنے کا اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کے دوست کے آپ کے ذمہ بقایا جات ہوں -یعنی اگر آپ کے ذمہ بقایا جات سابقہ تفصیلات کی روشنی میں ہوں – تو آپ ان بقایا جات کو نئی شراکت داری میں بطور سرمایہ شامل نہیں کر سکتے؛ کیونکہ شراکت داری کے لیے شرط ہے کہ رأس المال عینی چیز ہو، بقایا جات ] کی شکل میں نہ ہو۔

جیسے کہ "كشاف القناع" (3/ 497) میں ہے کہ:
"شراکت کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ: مضاربت کی طرح سرمایہ حقیقی طور پر موجود ہونا لازم ہے، تا کہ کام فوری شروع ہو سکے اور صحیح معنوں میں شراکت داری ہو، لہذا اگر مال موجود نہ ہو، یا کسی کے ذمہ بقایا جات کی شکل میں ہو تو شراکت داری صحیح نہیں ہو گی؛ کیونکہ اس طرح شراکت داری کا اصل مقصد فوری کاروباری سرگرمیاں شروع نہیں ہو سکیں گی۔" ختم شد

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (26/ 48):
"پہلی شرط: رأس المال عینی ہو، کسی کے ذمہ بقایا جات کی شکل میں نہ ہو؛ کیونکہ شراکت داری کی صورت میں ہونے والی تجارت کا مقصد نفع کمانا ہوتا ہے اور نفع قرض کے ذریعے نہیں کمایا جا سکتا، لہذا شراکت داری کے لیے مطلوب سرمایہ قرض کی صورت میں ہو تو شراکت داری کا اصل مقصد ہی پورا نہیں ہو گا۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب