منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

نماز تراویح عشاء سے قبل ہی ادا کرلیں !

سوال

میں مسجد میں داخل ہوا تو تراویح کی بھی آٹھ رکعت ہوچکی تھیں ، تراویح ادا کرنے کےبعد میں نے نماز عشاء ادا کی ، توکیا مجھے تروایح کی وہ فوت شدہ آٹھ رکعات بطور قضاء پڑھنی چاہیيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

یہ صحیح نہیں کہ آپ نماز عشاء سے قبل تروایح ادا کریں ، آپ کے لیے ایسا کرنا ممکن تھا کہ آپ مسجد میں عشاء کی نیت سے جماعت تراویح کے ساتھ شامل ہوجاتے ، اورجب دو رکعت کے بعد امام سلام پھیرتا توآپ اٹھ کرباقی دورکعات ادا کرلیتے ۔

اورپھر قیام اللیل تو عشاء کی نمازکے بعد ہوتا ہے نہ کہ نماز عشاء سے قبل ، بلکہ عشاء کی سنت مؤکدہ پڑھنے کےبعد قیام اللیل کرنا چاہیے ، آپ نے جوکچھ کیا ہے وہ صرف نفلی نماز ہے وہ قیام اللیل میں شامل نہيں ہونگی ۔

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گیا :

جب مسلمان مسجدمیں آئے اورتراویح کی جماعت ہورہی ہو اوراس نے نماز عشاء ادا نہ کی ہو توکیا وہ ان کے ساتھ نمازعشاء کی نیت سے نماز ادا کرسکتا ہے ؟

توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق اسے نماز عشاء کی نیت سے ان کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کوئي حرج نہیں ، اورجب امام سلام پھیرے تو اسے اپنی نماز مکمل کرنا ہوگي ، کیونکہ صحیح حدیث میں یہ ثابت ہے :

معاذ بن جبل رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کرتے اورپھر اپنے محلہ میں آکر لوگوں کو جماعت کروایا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں اس سے منع نہيں کیا ۔ صحیح بخاری ومسلم ۔

لھذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نفلی نمازپڑھنےوالے کے پیچھے فرضی نماز پڑھنے والے کی نماز ادا ہوجاتی ہے ۔

اورصحیح بخاری میں ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات صلاۃ خوف ایک گروہ کودورکعت پڑھائي اورسلام پھیری ، اورپھر دوسرے گروہ کوبھی دورکعت پڑھائيں اورسلام پیھری ، تو پہلی دو رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرض نماز تھی اوردوسری دو رکعتیں نفل تھیں اورمقتدی صحابہ کرام کی فرضی نماز تھی ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

دیکھیں مجموع فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 12 / 181 ) ۔

اورشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا یہ بھی کہنا ہے :

سنت یہ ہے کہ رمضان المبارک اوراس کے علاوہ باقی ایام میں تہجد نماز عشاء کی سنتیں ادا کرنے کے بعد ہونی چاہیۓ ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کیا کرتے تھے ، اوراس میں کوئي فرق نہيں کہ تہجد مسجد میں ہویا پھر گھر میں یہ سنتوں کے بعد ہی ادا کرنی چاہیۓ ۔

دیکھیں مجموع فتاوی الشيح ابن باز رحمہ اللہ ( 11 / 368 ) ۔

اوررہا مسئلہ نماز تروایح کی قضاء کا جوآپ ادا نہيں کرسکے اس میں آپ کو اختیار ہے کہ چاہیں تو ادا کرلیں توصحیح ہے اوراگر ادا نہ کرنا چاہیں تو پھر بھی آپ پر کوئي گناہ اورحرج نہيں ، کیونکہ تراویح نوافل میں شامل ہوتی ہے ، باقی نماز پنجگانہ کی طرح اس کی قضاء واجب نہيں ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد