الحمد للہ.
جب حائضہ عورت فجر سے قبل پاک ہوجائے اوروہ روزے کی نیت کرلے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا چاہے وہ طلوع فجر کے بعد ہی غسل کرے ، کیونکہ روزہ کے لیے طہارت شرط نہيں ۔
اور جنبی کے لیے بھی یہی حکم کہ اگروہ طلوع فجر سے قبل غسل نہ کرسکے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ انہوں نے ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا سے جنبی شخص کے بارہ میں پوچھا کہ آیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے ؟
تووہ کہنے لگيں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احتلام کی وجہ سے نہيں ( بلکہ جماع سے ) جنبی ہونے توصبح اٹھتے اورروزہ رکھ لیتے تھے ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1962 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1109 )
امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
اہل امصار کا اجماع ہے کہ جنبی شخص کا روزہ صحیح ہے ، چاہے وہ احتلام یا جماع سے جنبی ہو ۔۔۔۔
اورجب حائضہ اورنفاس والی عورت کا خون رات کو ختم ہوجائے اورطلوع فجر سے قبل وہ غسل نہ بھی کر سکے تو اس کا روزہ صحیح ہے ، اس پرروزہ مکمل کرنا واجب ہے چاہے وہ فجر سے قبل غسل عمدا نہ کرے یا پھر کسی عذر کی بنا پر جس طرح کہ جنبی ہے ۔
ہمارا مذھب بھی یہی ہے اوراکثر علماء کرام کا مسلک بھی یہی ہے سوائے اس کے جو بعض سلف سے بیان کیا گيا ہے لیکن ہمیں اس کے صحیح ہونے کا کوئي علم نہيں ۔ ا ھـ ۔
واللہ اعلم .