جمعہ 8 ربیع الثانی 1446 - 11 اکتوبر 2024
اردو

رسولوں پر ایمان کیا ہے؟

سوال

رسولوں پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رسولوں پر ایمان میں چار چیزیں شامل ہوتی ہیں:

پہلی چیز: تمام رسولوں کے متعلق یقینی ایمان کہ اللہ تعالی نے ہر امت میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہیں صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا اور اللہ کے علاوہ جس کی بھی وہ عبادت کرتے تھے ان کا انکار کرنے ترغیب دیتا تھا۔ یہ بھی یقین رکھنا کہ تمام رسول سچے ، اللہ تعالی کی طرف سے مصدقہ، نیکو کار، انتہائی بھلے مانس، متقی اور امانت دار تھے۔ اور یہ کہ انہوں نے اُن تمام چیزوں کی تبلیغ کر دی جو اللہ تعالی نے انہیں دے کر مبعوث فرمایا، پھر انبیائے کرام نے اس میں سے کچھ بھی نہ چھپایا اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی، انہوں نے اپنی طرف سے نہ تو کچھ اضافہ کیا اور نہ ہی اس میں ایک حرف کی بھی کمی کی؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
ترجمہ: رسولوں پر واضح تبلیغ کرنا ہی لازم ہے۔[النحل: 35]

-تمام کے تمام انبیائے کرام کی دعوت اس بات پر متفق ہے کہ عبادت کی اصل اور بنیاد عقیدہ توحید ہے کہ ہمہ قسم کی اعتقادی، قولی اور عملی عبادت صرف اللہ ہی کے لیے کی جائے، اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جاتی ہے اس کا انکار کیا جائے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنَا فَاعْبُدُونِ
 ترجمہ: اور ہم نے آپ سے قبل جتنے بھی رسول بھیجے سب کی طرف وہی کی کہ میرے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے، چنانچہ صرف میری ہی عبادت کرو۔[الأنبياء:25]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمَنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ
 ترجمہ: اور آپ ان سے پوچھیں جنہیں ہم نے آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا کہ کیا ہم نے رحمن کے علاوہ بھی کوئی الہ بنائے جن کی عبادت کی جاتی ہو؟ [الزخرف: 45] اس بارے میں ان کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں ۔

جبکہ نماز اور روزے وغیرہ کی شکل میں عبادات اور شرعی فروعی چیزیں ممکن ہیں کہ کسی قوم پر فرض ہوں اور کسی قوم پر فرض نہ ہوں، ایسے ہی کوئی چیز اللہ تعالی کی طرف سے امتحان کے طور پر ایک قوم پر حلال اور دوسری پر حرام ہو ، اس کا مقصد یہ ہو کہ: لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ترجمہ: تاکہ اللہ تمہیں آزمائے کون تم میں سے کارکردگی کے لحاظ سے سب سے بہترین ہے۔[الملک: 25] ، عبادات وغیرہ میں تفریق کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:  لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجاً  ترجمہ: تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت اور طرزِ زندگی مقرر کیا ۔[المائدہ: 48]

ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یعنی اللہ تعالی نے زندگی گزارنے کا راستہ اور طریقہ بنایا۔ یہی موقف مجاہد، عکرمہ اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت کا ہے۔

ایسے ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انبیائے کرام علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں، جبکہ ان کا دین ایک ہی ہے۔) اس حدیث کو بخاری: (3443) اور مسلم: (2365) نے روایت کیا ہے۔ یعنی: تمام کے تمام انبیائے کرام بنیادی طور پر اصل چیز میں ایک ہی ہیں اور وہ عقیدہ توحید ہے، یہی عقیدہ توحید اللہ تعالی نے اپنے بھیجے ہوئے ہر رسول کو عطا فرمایا، یہی عقیدہ توحید اللہ تعالی نے اپنی نازل کردہ ہر کتاب میں بیان فرمایا۔ لیکن ان انبیائے کرام کی شرعی تفصیلات الگ الگ ہیں کہ اوامر و نواہی، حلال و حرام یکساں نہیں ہیں۔ کیونکہ علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے اور ان کی مائیں الگ الگ ہوتی ہیں۔

-ان انبیائے کرام میں سے کسی ایک نبی کی رسالت کا انکار کرنا تمام کا انکار کرنا ہوتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے قوم نوح کے بارے میں فرمایا:
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ
ترجمہ: قوم نوح نے تمام رسولوں کو جھٹلایا۔ [الشعراء: 105] تو اللہ تعالی نے قوم نوح کو تمام انبیائے کرام کو جھٹلانے والا قرار دیا حالانکہ سیدنا نوح کے زمانے میں جب انہوں نے سیدنا نوح کی تکذیب کی تھی ان کے علاوہ کوئی اور نبی تھا ہی نہیں۔

دوسری چیز: جن رسولوں کے بارے میں ہمیں ان کا نام علم ہو گیا ہے تو ان کے نام کے ساتھ ان پر ایمان لانا، مثلاً: جناب محمد -صلی اللہ علیہ و سلم -، ابراہیم، موسی، عیسی اور نوح علیہم السلام وغیرہ ۔ اور جن انبیائے کرام کا نام ذکر نہیں کیا گیا تو ان پر اجمالاً ایمان لانا واجب ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ
 ترجمہ : رسول ایمان لایا اس پر جو اسی رسول کی جانب اس کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور مومن بھی ایمان لائے۔ سب کے سب اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر، اور اللہ کے رسولوں پر ایمان لائے۔ ہم کسی بھی رسول میں تفریق نہیں کرتے۔[البقرۃ: 285]

اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے بہت سے رسولوں کو آپ سے پہلے بھیجا ، ان میں سے کچھ کے قصص آپ کو ہم نے بیان کیے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے واقعات ہم نے آپ کو بیان نہیں کیے۔[غافر: 78]

ہم اس بات پر یقین اور ایمان رکھتے ہیں کہ سب سے آخری پیغمبر ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً 
ترجمہ: محمد -صلی اللہ علیہ و سلم – تم میں سے کسی مرد کے والد نہیں ہیں، اور لیکن وہ اللہ کے رسول، اور خاتم النبیین ہیں۔ اور اللہ تعالی ہمیشہ سے ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ [الاحزاب: 40]

ایسے ہی سیدنا سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے تو مدینہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا آپ کو یہ پسند نہیں ہے کہ آپ میرے لیے ایسے ہی ہوں جیسے ہارون علیہ السلام کا مقام موسی علیہ السلام کے بعد تھا، بس فرق یہ ہے کہ: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔) اس حدیث کو بخاری: (4416) اور مسلم: (2404) نے روایت کیا ہے۔

اس پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیگر انبیائے کرام کے مقابلے میں زیادہ فضیلت، خصوصیت اور عظمت سے نوازا ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1-اللہ تعالی نے آپ کو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے، حالانکہ اس سے پہلے انبیائے کرام کو صرف انہی کی قوم تک مبعوث کیا جاتا تھا۔

2-اللہ تعالی نے آپ کے دشمنوں کو آپ سے ایک ماہ کی دوری پر بھی مرعوب کر دیا۔

3-ساری کی ساری زمین آپ کے لیے جائے نماز اور طہارت کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔

4-آپ کے لیے مالِ غنیمت حلال کر دیا ، اس سے پہلے مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔

5- آپ کو شفاعت عظمی عطا کی ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس کے علاوہ بھی امتیازی خصائص ہیں۔

تیسری چیز: انبیائے کرام کی جو خبریں صحیح ثابت ہیں ان کی تصدیق کرنا۔

چوتھی چیز: انبیائے کرام میں سے جو نبی ہماری طرف بھیجے گئے ان کی شریعت پر عمل پیرا ہونا، اور وہ ہیں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آپ کو ساری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً 
ترجمہ: سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ [النساء: 65]

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ رسولوں پر ایمان لانے کے ڈھیروں فوائد ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1-اللہ تعالی کی بندوں پر اپنی رحمت اور ان کا خیال رکھنے کا یقین کہ اللہ تعالی نے صراط مستقیم کی جانب انسانیت کی رہنمائی کے لیے رسولوں کو بھیجا، پھر رسولوں نے بھی اپنی امتوں کو بتلایا کہ وہ اللہ کی بندگی کیسے کریں؛ کیونکہ انسان محض اپنی عقل کے ذریعے اللہ کی بندگی کا طریقہ نہیں سمجھ سکتا۔

2- رسولوں کی بعثت جیسی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ۔

3- تمام انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام سے محبت اور ان کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف، اور ان کی جانب سے تبلیغ رسالت، اور لوگوں کی خیر خواہی پر ان کی تعریف۔

واللہ اعلم

مزید کے لیے دیکھیں: " أعلام السنة المنشورة ": (97- 102) اسی طرح ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: " شرح الأصول الثلاثة ": (95 ، 96 )

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد