منگل 12 ربیع الثانی 1446 - 15 اکتوبر 2024
اردو

ميلاد النبى كے روز تقسم كردہ اشياء كھانے كا حكم

سوال

كيا محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ميلاد كے سلسلہ ميں تقسم كردہ اشياء اور كھانے وغيرہ كھانا جائز ہيں ؟
كچھ لوگ اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ ابو لہب نے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ميلاد ميں لونڈى آزاد كى تو اللہ تعالى نے اس روز اس كے عذاب ميں كى كردى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شريعت اسلاميہ ميں كوئى ايسى عيد نہيں جسے عيد ميلاد النبى كے نام سے موسوم كيا جاتا ہو، اور پھر صحابہ كرام اور نہ ہى تابعين عظام حتى كہ آئمہ اربعہ اور دوسرے بھى اپنےدين ميں اس دن كو جانتے تك نہ تھے، بلكہ اس عيد كو تو باطنيہ ميں سے بعض جاہل اور بدعتى لوگوں نے ايجاد كيا، اور پھر لوگ اس بدعت پر عمل كرنے لگے اور ہر دور اور جگہ علماء كرام اس كو برا جانتے اور اس سے روكتے رہے.

اس بدعت كے متعلق تفصيلى انكار ہمارى اسى ويب سائٹ پر درج ذيل سوالات كے جوابات ميں بيان ہو چكا ہے آپ ان كا مطالعہ ضرور كريں:

سوال نمبر ( 10070 ) اور ( 13810 ) اور ( 70317 ).

دوم:

اس بنا پر اس دن جو اعمال بھى لوگ اس سے خاص كرتے ہيں وہ حرام اور بدعت اعمال ميں شمار ہوتے ہيں، كيونكہ وہ ہمارى اس شريعت ميں اس بدعتى عيد كو جارى كرنا چاہتے ہيں، مثلا جشن منانا يا كھانے وغيرہ تقسيم كرنے جيسےاعمال.

شيخ فوزان اپنى كتاب " البيان لاخطاء بعض الكتاب " ميں بيان كرتے ہيں:

" كتاب و سنت ميں اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے مشروع كردہ اعمال پر چلنے اور دين ميں بدعت ايجاد كرنے كى ممانعت كسى پر مخفى نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محتب كرنا چاہتے ہو تو ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ) پيروى اور اتباع كرو اللہ تعالى تمہيں اپنا محبوب بنا لےگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا .

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

تم اس كى پيروى كرو جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل كيا گيا ہے، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر كسى اور كى اتباع مت كرو تم لوگ تو بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو الاعراف ( 3 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے سو اس راہ پر چلو اور دوسرى راہوں پر مت چلو كہ وہ راہيں تم كو اللہ كى راہ سے جدا كر ديں گى الانعام ( 153 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا سب سے سچى بات كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر اور اچھا طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور دين ميں بدعات كى ايجاد ہے "

اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں ہے تو وہ مردود ہے "

اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "

اور لوگوں نے جو بدعات ايجاد كى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن منانا بھى شامل ہے اور لوگ اس جشن كو منانے ميں كئى انواع اور اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں:

كچھ لوگ تو صرف اس جشن كو اجتماع بناتے ہيں اور اس ميں اكٹھے ہو كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس مناسبت سے تقارير اور قصيدے پڑھتے ہيں.

اور كچھ لوگ اس مناسبت سے كھانا وغيرہ اور مٹھائى تيار كر كے حاضرين كو پيش كرتے ہيں.

اور كچھ لوگ مساجد ميں قيام كرتے ہيں، اور كچھ لوگ اپنے گھروں ميں قيام اور عبادت كرتے ہيں.

اور كچھ ايسے بھى ہيں جو مندرجہ بالا امور پر ہى اقتصار اور بس نہيں كرتے بلكہ ان كا يہ اجتماع اور امور حرام اور برائيوں پر مشتمل ہوتا ہے جس ميں مرد و عورت كا اختلاط اور رقص و سرور كى محفل اور گانا بجانا بھى شامل ہے، يا پھر وہ شركيہ اعمال مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور آپ كو دشمن كے خلاف مدد كےليے پكارتےہيں.

اور يہ سب اشكال و انواع اور اس كے كرنے والوں كے مختلف اغراض و مقاصد مختلف ہونے كے باوجود بلاشك و شبہ يہ حرام اور بدعت ہے جو دين ميں قرون مفضلہ كے كئى دور كے بعد ايجاد كى گئى ہے.

اس بدعت كو ايجاد كرنے والا سب سے پہلا شخص ملك المظفر ابو سعيد كوكپورى ہے جو چھٹى صدى كے آخر يا ساتويں صدى كےشروع ميں اربال كا بادشاہ تھا، جيسا كہ مؤرخين مثلا ابن كثير اور ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے.

اور ابو شامہ كہتے ہيں:

موصل ميں اس كو منانے والا سب سے پہلا شخص عمر بن محمد ملا تھا جو صالحين ميں سے ايك صالح مشہور ہے، اور اربل كے بادشاہ نے اس كى پيروى ميں يہ جشن منايا تھا.

ديكھيں: البيان لاخطاء بعض الكتاب ( 268 - 270 ).

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ ابو سعيد كوكپورى كے ترجمہ ميں كہتے ہيں:

" يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد النبى كا بہت بڑا جشن منايا كرتا تھا...

پھر كہتے ہيں: سبط كا كہنا ہے: مظفر كے جشن ميلاد النبى ميں حاضر ہونے والوں ميں سے ايك كا بيان ہے كہ: اس جشن اور كھانے ميں ملك مظفر پانچ ہزار بكرے اور دس ہزار مرغياں بھون كر اور ايك لاكھ زبديہ اور تيس ہزار حلوے كى پليٹيں پيش كرتا....

يہاں تك كہتے ہيں:

اور صوفيوں كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع قائم كرتا اور ان كے ساتھ خود بھى رقص كرتا تھا " اھـ

ديكھيں: البدايۃ ( 13 / 137 ).

اور وفيات الاعيان ميں ابن خلكان كہتے ہيں:

" اور جب صفر كے ابتدائى ايام شروع ہوتے تو وہ ان قبوں كو مختلف قسموں كے قمقموں اور فخريہ زيبائش سے مزين كرتے، اور ہر قبے ميں ايك گروپ گانے والا اور ايك گروپ ارباب خيال اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والا بيٹھتا، اور ان طبقات ميں ( قبوں كے طبقہ ميں سے ) سے كوئى طبقہ خالى نہ چھوڑتے بلكہ اس ميں گروپ مرتب كرتے " اھـ

ديكھيں: وفيات الاعيان ( 3 / 274 ).

تو پھر اس دن بدعتى لوگ جو سب سے بڑا كام كرتے ہيں اور اس كا احياء كرتے ہيں وہ مختلف قسم كےكھانے پكا كر تقسيم كرنا اور لوگوں كو كھانے كىدعوت دينا ہے، اس ليے اگر مسلمان اس عمل ميں شريك ہو كر ان كا كھانا كھائے اور ان كے دستر خوان پر بيٹھے تو بلا شك و شبہ وہ اس بدعت كو زندہ كرنے ميں معاون اور شريك ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو المآئدۃ ( 2 ).

اسى ليے اہل علم كے فتاوى جات ميں اس روز اور بدعتيوں كے دوسرے تہواروں ميں تقسيم كيا جانے والا كھانا اور اشياء تناول كرنے كو حرام بيان كيا گيا.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميلاد النبى كے موقع پر ذبح كردہ گوشت كھانےكا حكم كيا ہے ؟

تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو وہ ميلاد والے ( يعنى جس كا ميلاد منايا جا رہا ہے ) كے ليے ذبح كيا گيا ہے تو يہ شرك اكبر ہے، ليكن اگر اس نے كھانے كے ليے ذبح كيا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اسے كھانا نہيں چاہيے، اور نہ ہى مسلمان اس مجلس اور ميلاد ميں حاضر ہو تا كہ وہ برائى كا عملى اور قولى طور پر انكار كر سكے؛ ليكن اگر وہ انہيں نصيحت كرنے اور اس بدعت كو بيان كرنےكےليے وہاں حاضر ہو ليكن اس ميں سے كچھ نہ كھائے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 9 / 74 ).

ہمارى اس ويب سائٹ پر اس سلسلہ ميں كچھ فتاوى جات موجود ہيں، آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

سوال نمبر ( 7051 ) اور ( 9485 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب