الحمد للہ.
جمادات اور درخت وغیرہ جن میں روح نہیں ہوتی ان کی تصاویر میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی میں کعبہ اور دیگر مقدس مقامات کی تصاویر شامل ہیں، بشرطیکہ ان میں لوگوں کی تصاویر نہ ہوں۔
تاہم نماز پڑھتے ہوئے یہ مناسب نہیں ہے کہ نمازی کے سامنے یا اس کے مصلے پر تصاویر وغیرہ بنی ہوئی ہوں؛ کیونکہ ان سے ذہن منتشر ہونے کا امکان ہوتا ہے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار موٹی اونی چادر میں نماز پڑھی اس پر دھاریاں بنی ہوئی تھیں، تو آپ اس کی دھاریوں کی جانب کچھ دیر دیکھتے رہے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: (میری یہ چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے ابو جہم کی [بغیر دھاریوں کے سادہ]موٹی چادر لا دو، ابھی اِس چادر نے مجھے نماز سے مشغول کر دیا تھا) ہشام بن عروہ اپنے والد سے ذکر کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں نماز کے دوران اس کی دھاریوں کی طرف دیکھتا رہا، تو مجھے خدشہ ہوا کہ یہ مجھے فتنے میں نہ ڈال دے)
اس حدیث کو امام بخاری: (373) اور مسلم : (556)نے روایت کیا ہے۔
چنانچہ منقوش اور پھول بوٹے بنے ہوئے ان مصلوں پر نماز کی کراہت اس لیے ہے کہ نمازی ان کو دیکھ کر نماز سے مشغول ہو جاتا ہے، لہذا سوال میں موجود سبب کے بر عکس مقدس مقامات کی تصاویر کی بے ادبی نماز پڑھنے سے روکنے کا سبب نہیں ہے۔ مزید برآں مصلوں پر موجود تصویروں میں کوئی بے ادبی محسوس نہیں ہوتی، بلکہ ایسے مصلے بنانے والے اس چیز کا خیال رکھتے ہیں اور عام طور پر قدموں کی جگہ کو ایسی تصاویر سے خالی رکھتے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے تصاویر بنے ہوئے مصلوں پر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"ہمارا یہ موقف ہے کہ امام کے لئے ایسا مصلی رکھنا ہی نہیں چاہیے کہ جس میں تصاویر ہوں؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ تصاویر کی وجہ سے توجہ منقسم ہو جائے اور نماز میں خلل واقع ہو، اسی لیے جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز ادا کی تو آپ اس کی دھاریوں کو دیکھنے لگے ، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: (میری یہ چادر ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے ابو جہم کی [بغیر دھاریوں کے سادہ]موٹی چادر لا دو، ابھی اِس چادر نے مجھے نماز سے مشغول کر دیا تھا) اس حدیث کو بخاری و مسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔
اور اگر اس طرح ہو کہ امام ان تصاویر سے مشغول ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ امام نابینا ہے، یا پھر اس طرح کی بہت سی تصاویر اس کی آنکھوں سے گزرتی ہیں تو اب وہ ان تصاویر کو اہمیت ہی نہیں دیتا اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کرتا ہے تو ایسی صورت میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین" (12/362)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (6/181) میں سوال ہے کہ:
"سوال: ایسے قالینوں پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جن پر اسلامی فن تعمیر کی شکلیں بنی ہوں، جیسے کہ آج کل مساجد میں بچھے ہوئے قالینوں پر ایسی تصاویر موجود ہوتی ہیں۔ اور یہ بھی بتلائیں کہ اگر ان تصاویر میں صلیب کی شکل بنی ہوئی ہو تو پھر اس پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہو گا؟ نیز یہ بھی واضح کر دیں کہ کسی بھی شکل پر صلیب ہونے کا حکم لگانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں نیچے والی لائن زیادہ لمبی ہو اور اوپر والا حصہ چھوٹا ہو، جبکہ دائیں بائیں چوڑائی برابر ہو، یا یہ کہ کوئی بھی دو خط ایک دوسرے کو کاٹ کر گزر جائیں تو وہ صلیب قرار پائے گی؟ ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ہمیں اس موضوع کے متعلق رہنمائی دیں کیونکہ یہ مسئلہ اس وقت بہت عام ہو چکا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو ہر طرح کا تحفظ دے اور آپ کی حفاظت فرمائے ۔
جواب: اول: مسجدیں اللہ کے گھر ہیں، انہیں نماز قائم کرنے اور صبح و شام حضور قلب کے ساتھ اللہ کی تسبیح کے لئے بنایا جاتا ہے، اللہ کے سامنے گڑگڑانے، خشوع و خضوع کے اظہار اور خشیت کے لئے بنایا جاتا ہے۔
چنانچہ مسجد کے قالینوں اور در و دیوار پر نقش و نگار دل کو ذکر الہی سے غافل کر دیتے ہیں، اور نمازیوں کا بہت سے خشوع و خضوع انہی نقش و نگار کی نظر ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت سے سلف صالحین نے انہیں مکروہ شمار کیا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی مساجد کو ایسی تمام چیزوں سے محفوظ رکھیں، تا کہ ان کی عبادت کو مکمل تحفظ ملے، اور مزید اجر عظیم پانے اور ثواب حاصل کرنے کے لئے ایسی تمام جگہوں کو توجہ بانٹنے والی اشیا سے محفوظ رکھیں جہاں پر وہ اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ تاہم ان پر ادا کی گئی نماز صحیح ہے۔
دوم: صلیب عیسائیوں کا شعار ہے، عیسائی صلیب کو اپنے عبادت خانوں میں تعظیم کے لئے رکھتے ہیں، اور صلیب کو ایک جھوٹے دعوے اور باطل عقیدے کی علامت قرار دیتے ہیں، اور وہ ہے عیسی بن مریم علیہ السلام کو سولی دینا۔
حالانکہ اس بارے میں تو اللہ تعالی نے یہود و نصاری دونوں کو جھوٹا قرار دیا اور فرمایا: وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ترجمہ: حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا [النساء: 157] اس لیے مسلمانوں کے لئے صلیب کا نشان مساجد یا کسی اور جگہ کے قالین پر بنانا جائز ہی نہیں ہے، نہ ہی یہ جائز ہے کہ بنے ہوئے صلیب کے نشان کو باقی رکھیں بلکہ اس کو مٹانا اور ختم کرنا لازمی ہے، تا کہ اس غلط چیز سے دور رہ سکیں اور عیسائیوں کی عمومی اور مذہبی ہر طرح کی مشابہت سے بالا تر ہو سکیں، اور اگر صلیب کے عمودی اور افقی خط چھوٹے بڑے ہوں یا برابر ہوں ان میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح اگر صلیب کا بالائی حصہ زیریں حصے سے کم ہے یا برابر ہے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔" ختم شد
واللہ اعلم