"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جو حج كى استطاعت ركھتا ہو اور اس ميں حج كى شروط بھى پائى جائيں تو اس پر اسى برس حج كرنا فرض ہو جاتا ہے، اور والدين يا كسى اور كے حج كى بنا پر اپنے حج ميں تاخير كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق حج فورى طور پر فرض ہوتا ہے، اور پھر فرض عين كو والدين كے ساتھ حسن سلوك سے مقدم كيا جائيگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ تعالى كے ليے لوگوں پر بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے جو اس تك جانے كى استطاعت ركھتا ہو، اور جو كوئى كفر كرے تو اللہ سبحانہ و تعالى جہان والوں سے بےپرواہ ہے آل عمران ( 97 ).
اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مكہ جانے ميں جلدى كرو، كيونكہ تم ميں سے كسى كو بھى علم نہيں كہ اسے كيا بيمارى لاحق ہو جائے يا كيا ضرورت پيش آ جائے "
اسے ابو نعيم نے " الحليۃ " ميں اور بيہقى نے " شعب الايمان " ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3990 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 41702 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اس حالت ميں والدين كا حج تو صحيح ہوگا، ليكن اس بيٹے كو استطاعت كى موجودگى ميں حج جلد كرنا چاہيے.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا انسان كے ليے خود حج پر جانے سے قبل اپنے والدين كو حج پر بھيجنا جائز ہے ؟
كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" ہر آزاد عاقل و بالغ اور حج كى استطاعت ركھنے والے مسلمان پر زندگى ميں ايك بار حج كرنا فرض ہے، اور كسى واجب كى ادائيگى ميں والدين كى معاونت كرنا اور والدين سے حسن سلوك كرنا بقدر استطاعت مشروع ہے.
ليكن يہ ہے كہ اگر آپ اپنے والدين كے ساتھ حج نہيں كر سكتے تو پہلے آپ اپنا فرضى حج كريں، اور پھر والدين كے حج كرنے ميں تعاون كريں، اور اگر آپ اپنے حج سے پہلے والدين كو حج كراتے ہيں تو ان كا حج صحيح ہوگا "
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 70 ).
واللہ اعلم .