"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو بيٹى كى وفات پر اجروثواب سے نوازے، اور اسے روز قيامت اپنے گھر والوں كے ليے شفاعت كا باعث بنائے، اور آپ كو اس خاوند كا بھى اجر عظيم دے جس نے وہ كچھ كہا اور كيا جس كى بنا پر آپ كوغم و پريشانى ہوئى.
يہ علم ميں ركھيں كہ دنيا تو امتحان و آزمائش كى جگہ ہے اور مسلمان شخص كو اس دنيا ميں غم و پريشانى اور بيمارى آتى ہے تو اسے چاہيے كہ وہ اس ميں اجروثواب كے حصول كى كاميابى ضرورى حاصل كرے، اس ليے آپ كو جو كچھ پہنچا ہے اس ميں اپنے پرودگار اللہ عزوجل سے اجروثواب كى ني تركھيں اور اللہ سے صبر و تحمل كى دعا كريں، اور اپنے دين پر ثابت قدمى طلب كريں.
رہا مسئلہ طلاق طلب كرنا تواس كے متعلق گزارش ہے كہ:
آپ كے خاوند كى جانب سے كچھ ايسى اشياء اور اعمال صادر ہوئے ہيں جن كى بنا پر طلاق طلب كرنا مباح ہو جاتى ہے تو پھر جب يہ اسباب سب جمع ہو جائيں تو كيسے ؟!
تہمت و بہتان كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتا ہے، اور كسى كے ليے بھى بہتان لگانا حلال نہيں، اور پھر سب و شتم اور قتل كى دھمكى يہ ايسے امور ہيں جو كسى دور والے اور اجنبى شخص سے كوئى آدمى برداشت نہيں كرتا.
ليكن اگر يہ سب كچھ شريك حياۃ خاوند سے صادر ہوں تو كيا حال ہوگا، جس كے ساتھ وہ ايك ہى گھر ميں رہتى ہو؟!
بلاشك و شبہ طلاق طلب كرنے والى اس عورت كو حديث ميں وارد شدہ وعيد شامل نہيں ہوتى:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى اور حاجت كے طلاق كا مطالبہ كيا اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند سے طلاق كا مطالبہ كرنے والى عورت كے ليے وعيد والى جتنى بھى احاديث وارد ہيں وہ سب اس پر محمول ہيں كہ اگر طلاق مباح كرنے والا كوئى سبب نہ ہو تو طلاق كا مطالبہ كيا جائے "
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 402 ).
اور مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى ايسى تنگى اور سختى كے بغير جس كى بنا پر عليحدگى طلب كرنے پر مجبور ہونا پڑے.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 4 / 410 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جب ازدواجى تعلقات ختم كرنے كا كوئى سبب پايا جائے تو بيوى اس كے مطالبہ كا حق ركھتى ہے، مثلا خاوند بيوى كو نان و نفقہ ميں تنگ كرتا ہو، اور خاوند غائب ہو، اور اس كے علاوہ دوسرے اسباب جن كى وسعت و تنگى ميں فقھاء كا اختلاف ہے.
ليكن يہ عورت كى تعبير كے مطابق نہيں بلكہ قاضى كے فيصلہ كے مطابق ہونگے، مگر يہ كہ خاوند بيوى كو طلاق كا حق سپرد كر دے تو اس حالت ميں وہ اپنے قول كے ساتھ اس كى مالك بن جائيگى.
جب خاوند اور بيوى عليحدہ ہونے پر متفق ہو جائيں تو يہ جائز ہے، اور يہ فيصلہ كى ضرورت كے بغير ہى پورا ہو جائيگا، اور اسى طرح قاضى كو بھى حق حاصل ہے كہ جب عليحدگى كے اسباب پيدا ہو جائيں تو اللہ كے حق كى حمايت كرتے ہوئے وہ ان ميں عليحدگى كرائےگا، مثلا:
اللہ محفوظ ركھے اگر خاوند يا بيوى ميں سے كوئى مرتد ہو جائے، يا پھر اگر وہ مجوسى تھے تو كوئى ايك مسلمان ہو جائے، اور دوسرا اسلام قبول نہ كرے.
مگر اس سب كو طلاق كا نام نہيں ديا جائيگا، صرف پہلے كو طلاق كہا جائيگا جو كہ خاوند كى عبارت اور خاص اس كے ارادہ سے ہوگى، اس كى دليل كہ طلاق خاص خاوند كا حق ہے يہ حديث ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" طلاق تو اس كا حق ہے جس نے پنڈلى پكڑى "
اسے ابن ماجہ ( 2072 ) نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں حسن قرار ديا ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 11 ).
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خاوند كو اپنے بارہ ميں اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنى زبان كو حرام ميں استعمال كرنے سے روكنا چاہيے، اور اس كے گھر والوں اور حكمران ميں سے جو كوئى بھى اسے اس سے روك سكتا ہے اسے منع كرنے ميں آگے بڑھنا چاہيے.
اگر بيوى چاہے تو وہ خاوند كى جانب سے اذيت و تكليف كو برداشت كرے، اور اگر چاہے تو وہ طلاق طلب كر سكتى ہے اگر خاوند كے ساتھ اس كا طلاق پر سمجھوتہ ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ وہ اپنا مقدمہ عدالت ميں شرعى قاضى كے سامنے پيش كرے تا كہ اگر ضرر و نقصان ثابت ہو جائے تو قاضى خاوند كو طلاق دينا لازم كرے.
واللہ اعلم .