"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں نے آپ كو سوال أي ميل كيا تھا كہ چھ ماہ سے زائد عرصہ بيوى سے دور رہنے كا حكم كيا ہے، آپ نے جواب ديا كہ اگر بيوى راضى ہو تو پھر كوئى حرج نہيں، ليكن اگر بيوى راضى نہ ہو تو پھر كيا حكم ہے ؟
ليكن بيوى اس پر مجبور ہے كيونكہ حالات بہت خراب ہيں اور ميرے پاس تو اتنى رقم بھى نہين كہ اگر ميں واپس اپنے ملك جا كر بيوى كے پاس رہ كر كام كرتا ہوں تو يہ پيسے تو كھانا بھى پورا نہيں كرينگے، باقى معاملات كا كيا ہوگا.
اس ليے ميرے سامنے يہى راہ ہے كہ بيوى سے دور رہ كر ملازمت كى جائے، اور بيوى سے دور رہنے كا عرصہ سات برس يا اس سے بھى زائد ہو سكتا ہے، اور سال ميں صرف بيوى كو ايك ماہ ہى ديكھ سكتا ہوں.
برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اگر بيوى ميرى اس مشكل حالت ميں راضى ہو تو كيا دين اسلام كا حكم كيا ہو گا ؟
اور اگر بيوى راضى نہ ہو تو دين اسلام كيا كہتا ہے، حالانكہ خاوند بيوى كے پاس جانے پر قادر ہو ليكن وہ مال كى محبت ميں زيادہ عرصہ رہے اور طويل عرصہ بعد بيوى كے پاس جائے ؟
الحمد للہ.
اگر بيوى چھ ماہ سے زائد عرصہ اپنے خاوند كے دور رہنے پر راضى نہ ہو تو وہ اپنا معاملہ شرعى عدالت ميں قاضى كے پاس ركھےگى تا كہ وہ اس كے خاوند سے رابطہ كر كے اسے واپس آنے كا كہے، اور اگر وہ قاضى كے حكم پر بھى واپس نہ آئے تو پھر قاضى جو بہتر سمجھے فيصلہ كرے چاہے طلاق كا يا پھر فسخ نكاح كا.
چاہے خاوند كسى ضرورت كى بنا پر مثلا مال كمانے يا اپنے ملك ميں كام نہ ہونے كى بنا پر ہو، يا پھر بغير عذر كے ہو يعنى صرف مال كى محبت ميں دور رہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے.
ليكن عذر اور بغير عذر كى حالت ميں فرق يہ ہے كہ عذر كى حالت ميں خاوند كو واپس آنے پر لازم نہيں كيا جائيگا، اور اگر وہ واپس نہيں آتا تو گنہگار نہيں ہوگا.
ليكن اگر عذر نہ ہو تو پھر اس پر واپس آنا واجب ہے اور اگر نہ آئے تو گنہگار ہوگا.
ليكن دونوں حالتوں ميں عورت كو ضرر اور نقصان ہونے كى بنا پر طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہے.
عورت كو ضرر اور نقصان ہونے كى حالت ميں خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ اسے زبردستى اپنے نكاح ميں ركھے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں نقصان اور ضرر دينے كے ليے مت روكے ركھو كہ ان پر زيادتى كرو البقرۃ ( 231 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تم انہيں اچھے طريقہ سے ركھو يا پھر اچھے طريقہ سے چھوڑ دو الطلاق ( 2 ).
كشاف القناع ميں درج ہے:
" اگر خاوند كسى عذر اور ضرورت كى بنا پر بيوى سے دور سفر پر ہو تو بيوى كا تقسيم اور وطئ ميں حق ساقط ہو جائيگا چاہے سفر عذر كى بنا پر كتنا ہى لمبا ہو جائے...
اور اگر كوئى عذر نہ ہو جو اس كى واپسى ميں مانع ہو اور خاوند اپنى بيوى سے چھ ماہ سے زائد عرصہ دور رہے تو خاوند كو واپس آنے كا حكم ديا جائيگا، اور اسے واپس آنا لازم ہے.
كيونكہ ابو حفص نے اپنى سند سے يزيد بن اسلم سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
ايك رات عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ مدينہ كى پہريدارى ميں تھے كہ ايك عورت كے گھر كے پاس سے گزرے وہ عورت درج ذيل اشعار كہہ رہى تھى:
رات بہت لمبى ہوگئى اور اس كى طرف سياہ ہوچكى افسوس كہ كوئى محبوب نہيں جسے ميں خوش كروں اور كھلواؤں، اللہ كى قسم اگر اللہ كا ڈر نہ ہو اور شرم و حياء آڑے نہ آتى تو اس چارپائى كى چوليں حركت كر رہى ہوتيں.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس عورت كے بارہ ميں دريافت كيا تو بتايا گيا كہ فلاں عورت ہے اس كا خاوند جھاد فى سبيل اللہ ميں گيا ہوا ہے، چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس عورت كے پاس رہنے كے ليے ايك عورت بھيج دى، اور اس كے خاوند كو واپس آنے كا پيغام ديا اور اسے واپس بلا ليا پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ اپنى بيٹى ام المؤمنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گئے اور فرمايا:
بيٹى مجھے بتاؤ كہ عورت اپنے خاوند سے كتنا صبر كر سكتى ہے ؟
حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: آپ جيسا شخص مجھ سے اس طرح كا مسئلہ دريافت كرتا ہے ؟
تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: اگر ميں مسلمانوں كے حالات كو نہ ديكھنا چاہتا تو ميں اس كے بارہ آپ سے دريافت نہ كرتا.
چنانچہ حفصہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: پانچ ماہ چھ ماہ.
چنانچہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے لوگوں كے ليے ميدان جھاد ميں چھ ماہ كا عرصہ مقرر كر ديا، ايك ماہ جانے اور ايك ماہ آنے اور چار ماہ وہاں رہنے كے ليے "
واپس آنا اس صورت ميں لازم ہے جب عذر نہ ہو، ليكن اگر عذر ہو مثلا طلب علم كے ليے گيا ہو، يا پھر فرضى جھاد اور فرضى حج كے ليے يا پھر ضرورت كے مطابق روزى كمانے كے ليے گيا ہو تو اسے واپس آنا لازم نہيں كيا جائيگا، كيونكہ عذر والا شخص عذر كى بنا پر مجبور ہے، چنانچہ قاضى اسے واپس آنے كا خط لكھےگا، اگر وہ قاضى كے خط كے بعد بھى بغير كسى عذر كے واپس آنے سے انكار كر دے تو قاضى ا س كا نكاح فسخ كر ديگا، كيونكہ اس نے اپنے اوپر ايسے حق ميں كوتاہى كى اور اسے ترك كيا ہے جسے ترك كرنے كى بنا پر عورت كو ضرر ہو رہا ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 193 ).
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" اگر خاوند اپنى بيوى سے بغير كسى عذر كے غائب ہو جائے، تو بيوى كو اس سے عليحدگى اور طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہوگا، ليكن اگر وہ كسى عذر كى بنا پر جائے تو پھر بيوى كو طلاق طلب كرنے كا حق نہيں، حنابلہ كا مسلك يہى ہے.
اور مالكيہ كہتے ہيں كہ اگر خاوند اپنى بيوى سے كچھ عرصہ كے ليے غائب ہو جائے تو بيوى كو اپنے خاوند سے عليحدگى لينے كا حق ہے، چاہے سفر كسى عذر كى بنا پر ہو يا بغير عذر كے، كيونكہ اس كى وطئ كا حق واجب ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 63 ).
شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں شادى شدہ جوان ہوں اور بيوى سے دور دوسرے ملك ميں ملازمت كرتا ہوں، اس ملك ميں قانون صرف چند ايك پيشہ ركھنے والوں كو ہى بيوى بچے ركھنے كى اجازت دى جاتى ہے، مجھے يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں دين حنيف كيا كہتا ہے، كيونكہ چھٹى تو ہر سال يا پھر ايك برس دو ماہ بعد ملتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" بعض صحابہ كرام نے خاوند كا بيوى سے غائب رہنے كو چارہ ماہ كى مدت سے محدود كيا ہے، اور بعض نے چھ ماہ ليكن يہ بيوى كے واپس آنے كے مطالبہ كے بعد ہے، اس ليے اگر بيوى نے خاوند سے واپس آنے كا مطالبہ كيا اور چھ ماہ بيت گئے اور خاوند واپس آنے پر قادر ہونے كے باوجود نہ آيا تو بيوى كو اپنا معاملہ قاضى كے پاس لے جانا چاہيے تا كہ وہ نكاح فسخ كر سكے.
ليكن اگر بيوى اپنے خاوند كو رہنے كى اجازت دے ديتى ہے چاہے طويل عرصہ ہى ہو، اور ايك يا دو برس سے بھى زائد ہو جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ بيوى كو حق تھا جو اس نے ساقط كر ديا ہے، جب وہ خاوند كے غائب ہونے پر راضى ہوئى تو پھر اسے فسخ نكاح كا حق حاصل نہيں ہوگا، اور جب خاوند نے اپنى بيوى كے ليے نان و نفقہ اور اس كے لباس اور دوسرى ضروريات پورى كر ركھى ہيں، تو فسخ نكاح كا حق نہين ہوگا، اللہ تعالى ہى تمہيں توفيق سے نوازےگا" انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 212 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
چار بچوں كا باپ كہتا ہے ميں نے اپنے وطن سے دوسرے ملك مالى حالت بہتر كرنے كے ليے ملازمت اختيار كى اور تقريبا ميں تين برس تك بيوى بچوں سے دور رہا، ليكن بيوى بچوں كو اخراجات ديتا رہا، اور خط و كتابت بھى جارى ركھى جناب والا مجھے بتائيں كہ شريعت اسلاميہ بيوى كے حقوق كيا ہيں اور كيا ميرے اس فعل كى بنا پر مجھے كوئى گناہ ہو گا ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ميں كہتا ہوں كہ عورت كو اپنے خاوند پر حق ہيں اور خاوند كے بھى بيوى پر حقوق ہيں، خاوند اپنى بيوى سے استمتاع كر سكتا ہے، جيسا كہ عادت و رواج ہے، اور اگر وہ كمائى كے ليے بيوى كى رضامندى سے كہيں جاتا ہے اور بيوى پرامن جگہ پر رہتى ہو جہاں اسے كسى قسم كا خدشہ نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
كيونكہ يہ اس كا حق تھا جب وہ اسے اپنى رضامندى كے ساتھ ساقط كر رہى ہے اور پرامن و اطمنان والى جگہ بھى ميسر ہے تو خاوند كے تين برس تك يا اس سے كم يا زيادہ عرصہ غائب رہنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر بيوى اپنے خاوند كو واپس آنے كا كہے تو پھر يہ چيز اس ملك كى عدالتوں سے رجوع كى جائيگى جو شريعت كے مطابق كوئى فيصلہ كريں گے " انتہى
ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب.
حاصل يہ ہوا كہ: خاوند كا اپنى بيوى سے چھ ماہ سے زائد عرصہ دور رہنے ميں اگر بيوى راضى ہو اور بيوى كو پرامن جگہ پر چھوڑ كر گيا ہو تو كوئى اشكال نہيں، اور اگر وہ اس سے راضى نہيں تو پھر وہ شرعى قاضى كے پاس اپنا معاملہ لے كر جائے تا كہ وہ اس كے معاملہ كو ديكھ كر كوئى فيصلہ كرے، آيا خاوند كو معذور قرار دے يا پھر اسے واپس آنے كا حكم دے، يا نكاح فسخ كر دے، اسے جو بہتر معلوم ہو اس كا فيصلہ كر سكتا ہے.
بيوى بچوں سے دور رہنے ميں جو ان پر اثر پڑے كا خاوند كو اس كا ادراك ہونا چاہيے، كيونكہ ان كى اصلاح اور ديكھ بھال متاثر ہوگى اور وہ مال كرتا پھر رہا ہے، اگر اپنے ملك ميں اسے كافى آمدنى ہو سكتى ہے تو اسے وہيں رہنا چاہيے، كيونكہ دين كى كمى اور كوتاہى كو كوئى چيز بھى پورا نہيں كر سكتى، اور مال و متاع دين كا عوض نہيں بن سكتے.
كتنے ہى گھر ايسے ہيں جہاں گھر كا سربراہ باہر رہا تو اس كے جوان بيٹے بيٹياں تباہى كى طرف جا نلكے، اللہ سبحانہ و تعالى سے عافيت كے طلبگار ہيں.
اس ليے ہم آپ كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرنے كى نصيحت كرتے ہيں، اور يہى كہتے ہيں كہ اپنے بيوى بچوں كى حرص ركھيں، اور حتى الوسع مال جمع كرنے كى كوشش كريں تا كہ آپ اپنے ملك واپس جا كر كچھ كر سكيں.
يا پھر بيوى بچوں كو اپنے پاس بلا ليں، كيونكہ بيوى كا بھى حق ہے اور بچوں كا بھى حق ہے، اور كل روز قيامت آپ نے ان سب كا جواب دينا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى تم سے ان كى ديكھ بھال كے متعلق دريافت كرےگا.
واللہ اعلم .