"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
بيوى كا نان و نفقہ خاوند پر بہتر طريقہ سے واجب ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چاہيے كہ آسودہ حال والا اپنى آسودگى سے خرچ كرے اور جس كى روزى اس پر تنگ ہو وہ اللہ كے عطا كردہ سے خرچ كرے، اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اتنا ہى مكلف كرتا ہے جتنا اسے ديا ہے الطلاق ( 7 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور جس كا بچہ ہے اس پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور لباس معروف طريقہ سے ہے البقرۃ ( 233 ).
اور حجۃ الوداع كے خطبہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:
" اور ان عورتوں كا تم پر بہتر اور معروف طريقہ سے نان و نفقہ اور لباس واجب ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو سفيان كى بيوى ہند سے فرمايا تھا:
" تم بہتر اور معروف طريقہ سے اتنا كچھ لے ليا كرو جو تمہيں اور تمہارے بچے كو كافى ہو "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 3233 ).
جمہور فقھاء جن ميں مالكيہ شافعيہ اور حنابلہ شامل ہيں كے قول كے مطابق بيوى كا يہ نان و نفقہ اس وقت واجب ہوگا جب بيوى اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كر دے، صرف عقد نكاح سے نان و نفقہ واجب نہيں ہوتا.
اس ليے جب عورت اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كر دے اور خاوند اس سے استمتاع كر سكے تو بيوى كا نان و نفقہ خاوند كے ذمہ واجب ہو جائيگا.
اور اسى طرح اگر بيوى نے اپنا آپ خاوند كے سپرد كر ديا ليكن خاوند كى جانب سے تاخير ہو رہى ہو تو اس صورت ميں بھى بيوى كا نان و نفقہ خاوند پر واجب ہو جائيگا، مثلا اگر عقد نكاح ہونے كے بعد بيوى يا اس كے گھر والے كہتے ہيں كہ تم جس وقت بيوى كو لے جانا چاہو لے جا سكتے ہو ليكن خاوند اپنى جانب سے كسى سبب كے باعث رخصتى ميں تاخير كر دے تو خاوند پر نان و نفقہ واجب ہو جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اجمالى طور پر يہ كہ جب عورت اپنے آپ كو واجب طريقہ پر خاوند كے سپرد كر دے تو بيوى كو سب ضروريات لينے كا حق حاصل ہوگا، مثلا كھانا پينا اور لباس و رہائش وغيرہ " انتہى
اور روضۃ الطالب شرح اسنى الطالب ميں درج ہے:
" عقد نكاح كى بنا پر نہيں بلكہ اپنے آپ كو خاوند كے سپرد كرنے سے نفقہ واجب ہوگا " انتہى
ديكھيں: روض الطالب مع شرحہ اسنى المطالب ( 3 / 432 ).
اور زاد المستقنع ميں حجاوى كا قول ہے:
" جس نے بيوى اپنے سپرد كر لى، يا بيوى نے اپنا آپ خاوند كے اختيار ميں دے ديا، اور اس جيسى عورت سے وطئ كى جا سكتى ہو تو اس كا نفقہ واجب ہو جائيگا " انتہى
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس كى شرح ميں كہتے ہيں:
" قولہ: يا وہ اپنا آپ خاوند كے اختيار ميں دے دے يعنى كہے كہ مجھے دخول ميں كوئى مانع نہيں، ليكن خاوند كہے ميں ابھى دخول نہيں كرنا چاہتا، ايك ماہ تك ميرے امتحانات ہيں ايك ماہ بعد لے جاؤنگا، تو اس ايك ماہ كا نفقہ خاوند پر واجب ہوگا؛ كيونكہ ركاوٹ كو خاوند كى جانب سے ہوئى ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 487 ).
اس بنا پر اگر آپ كا بيوى كے گھر والوں سے اتفاق يہ ہوا تھا كہ ايك برس بعد رخصتى ہوگى، تو اس ايك برس كا نفقہ آپ پر واجب نہيں ہوگا.
واللہ اعلم .