"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
جس وقت کوئی آپ کی ذات میں دلچسپی رکھتا ہو اور کھنچتا چلا آ رہا ہو، پھر یہ دلچسپی معقول حد سے بڑھ بھی جائے جیسے کہ لڑکیاں آپس میں بڑھ جاتی ہیں، تو ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ آپ ایسے شخص کا علاج کیسے کر سکتے ہیں کہ جس سے آپ کو بھی نقصان نہ ہو اور دوسرا بھی نقصان سے بچ جائے؟ واضح رہے کہ ایسے میں انسان غلط کاری میں بھی ملوث ہو سکتا ہے، آپ ایسے شخص کو اس صورت حال میں دینی اور دنیاوی ہر دو اعتبار سے کیا نصیحت کریں گے؟ اللہ تعالی آپ کو ڈھیروں اجر سے نوازے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اللہ تعالی آپ کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔
الحمد للہ.
اول:
مرد کا عورت کی جانب اور عورت کا مرد کی جانب میلان فطری اور طبعی امر ہے، لیکن کسی مرد کا مرد کی جانب شہوانی میلان غیر فطری امر ہے، اللہ تعالی نے انسان کو اس مزاج پر پیدا نہیں فرمایا، ہم جنس پسندی در حقیقت معاشرے میں پھیلنے والا گھٹیا ناسور ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے دل ایمانیات اور عقائد سے عاری ہو کر کافروں کے معاشروں کی تقلید میں لگے ہوئے ہیں جنہوں نے فطری امور سے تصادم کی راہ اختیار کیا ہے، پھر یہ ہم جنس پسندی بڑھتے ہوئے عشق تک جا پہنچتی ہے جس کی بنا پر لڑکی اپنی معشوقہ کو دیکھے، سنے اور بات کئے بغیر نہیں رہ سکتی، اور معاملہ طبق زنی (خواتین کا ہم جنسی عمل) تک جا پہنچتا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
خواتین کا چپٹی کھیلنا (خواتین کا ہم جنسی عمل) اور ہاتھ سے منی خارج کرنے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"لڑکیوں کا آپس میں جنسی عمل حرام ہے، بلکہ کبیرہ ترین گناہوں میں شامل ہے؛ کیونکہ یہ عمل اللہ تعالی کے اس فرمان سے متصادم ہے: (وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ * فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ)
ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ٭ ماسوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ، تو وہ قابل ملامت نہیں ہیں ٭ پس جو شخص بھی ان کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے تو یہی لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔[المؤمنون:5 – 7]
نیز اسی آیت کی رو سے جلق [ہاتھ سے منی کا اخراج]بھی منع ہے؛ کیونکہ یہ بھی سنگین نتائج کا باعث ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد اللہ غدیان، شیخ عبد اللہ قعود۔
فتاوی دائمی کمیٹی (22/68)
دوم:
اگر کسی شخص کو یہ علم ہو جائے کہ کوئی اس میں غلط حد تک دلچسپی رکھتا ہے تو پھر اسے حکمت اور دانائی کے ساتھ اس کا علاج کرنا چاہیے، اس کیلیے درج ذیل اقدامات کر سکتا ہے:
سوم:
اگر انسان کو یہ محسوس ہو کہ وہ خود کسی پر فریفتہ ہو رہا ہے، اور یہ بھی نظر آئے کہ یہ شیطانی چال ہے تو پھر اس صورت حال سے نکلنے کی پوری کوشش کرے، اور معاملہ بگڑنے سے پہلے اپنے آپ کو سنبھال لے مبادا معاملہ حرام عشق تک نہ جا پہنچے، اس کیلیے وہ درج ذیل اقدامات کر سکتا ہے:
چہارم:
مسلمانوں کا باہمی تعلق شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، اس کی بنیاد تقوی ہو۔ اگر کوئی شخص اس دنیا میں گناہ کی بنا پر تعلقات بناتا ہے تو کل آخرت کے دن وہ سب کے سب دشمن بن جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ )
ترجمہ: اس دن متقی لوگوں کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کیلیے دشمن ہو جائیں گے۔ [الزخرف:67]
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ: دنیا میں گناہوں کی بنا پر ایک دوسرے کے دوست بننے والے افراد روزِ قیامت آپس میں دشمن بن جائیں گے، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اظہار لاتعلقی کرے گا، صرف وہ لوگ وہاں بھی باہمی دوست ہوں گے جن کا تعلق تقوی الہی کی بنیاد پر تھا"
تفسیر طبری: ( 21 / 637 )
اسی طرح ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسی دوستی جو غیر اللہ کی بنیاد پر تھی وہ قیامت کے روز عداوت میں تبدیل ہو جائے گی، صرف وہی دوستی قائم رہے گی جو اللہ کیلیے تھی، تو یہ دوستی دائمی وقت تک قائم رہے گی"
تفسیر ابن کثیر: ( 7 / 237 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دوستی اور محبت دونوں فریقوں کے مفاد میں نہ ہو تو اس کا انجام دشمنی ہو گا۔ اور فریقین کیلیے مفید اسی وقت ہو گی جب یہ محبت اللہ کیلیے ہو۔اگر دونوں فریق ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور رضا مندی سے تعاون بھی کرتے ہیں، تو اس باہمی تعاون اور مدد کا کوئی اعتبار نہیں ہے ، یہ روزِ قیامت بغض ، دشمنی، لعن طعن میں تبدیل ہو جائے گی اور ہر ایک فریق دوسرے سے کہے گا: اگر تم نہ ہوتے تو میں اکیلا یہ حرکت نہ کرتا، میں تمہاری اور اپنی کوتاہی کی وجہ سے تباہ ہوا ہوں۔
پھر وہاں پر اللہ تعالی بھی انہیں باہمی بغض، دشمنی اور لعن طعن سے نہیں روکے گا، چنانچہ اگر ان دونوں میں ایک دوسرے پر ظلم کر رہا ہوتا تو اللہ تعالی کی جانب سے اسے روک دیا جاتا، ہر ایک دوسرے کو کہے گا: تم نے اپنے شخصی مفاد کیلیے مجھے اس چنگل میں پھنسایا، بالکل اسی طرح جیسے زانی دوسرے فریق کو کہتا ہے کہ تم نے مزے لینے کیلیے میرے ساتھ ایسا کیا ہے، اگر تم مجھ سے دور رہتے تو میں ایسی حرکت نہ کرتا، لیکن در حقیقت دونوں نے ہی یہاں پر یکساں فائدہ لیا ہے تو اس طرح دونوں ہی برابر کی سزا کے مستحق ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى " ( 15 / 129 )
توبہ کا دروازہ توبہ کرنے والے سب لوگوں کیلیے کھلا ہے، ایمان و اطاعت کی لذت ہر اس شخص کیلیے میسر ہے جو ان کی لذت اٹھانا چاہتا ہے، اللہ تعالی گناہ معاف فرما دیتا ہے، توبہ قبول فرماتا ہے؛ بلکہ گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(إِلَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً)
ترجمہ: مگر جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرنے لگے تو ان کے برے اعمال کو اللہ نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الفرقان: 70 ]
اسی طرح فرمایا:
( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )
ترجمہ: اور بیشک میں توبہ کر کے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے کے بعد راہ راست پر رہنے والوں کو بخشنے والا ہوں ۔ [ طہ: 82]
اس بارے میں مزید جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (10050 ) کا جواب ملاحظہ کریں، اس میں اس چیز کی وضاحت ہے کہ اسلام نے لواطت اور طبق زنی کو کیوں حرام قرار دیا ہے۔
اسی طرح سوال نمبر: (21058 ) میں طبق زنی کی سزا بیان کی گئی ہے جبکہ ( 60351 ) اور (36837) میں روزانہ کی بنیاد پر اسکول کی طالبات کا آپس میں بوسہ دینا اور ہونٹوں کو چومنے پر تبصرہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح سوال نمبر: (591 ) میں لڑکیوں کی آپس میں حد سے متجاوز محبت کہ جس میں ایک دوسرے سے جدا رہنا ممکن نہ رہے اس کے بارے میں حکم بتلایا گیا ہے۔
واللہ اعلم