"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے آپ کی ویب سائٹ پر یہ فتوی پڑھا ہے کہ معاوضہ لے کر طلبہ اسائنمنٹ تیار کرنا حرام ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اگر استاد کو بھی علم ہو کہ طلبہ دوسروں سے اسائنمنٹ تیار کروا کر لائیں گے، اور وہ بھی خود نہیں لکھیں گے بلکہ نیٹ سے اٹھا کر کاپی پیسٹ کریں گے۔ بلکہ بعض اساتذہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ انٹرنیٹ سے اٹھا کر جمع کروا دیں۔ تو ایسی صورت میں بھی یہ کام حرام ہو گا؟ کیونکہ میں نے اس سے پہلے کچھ طلبہ کا کام کیا تھا، لیکن جب سے میں نے یہ فتوی پڑھا ہے تو میں نے یہ کام چھوڑا ہوا ہے۔
الحمد للہ.
طلبہ سے طلب کی جانے والی اسائنمنٹ اور تحقیقی پیپروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ تحقیقی کام کرنے کی مشق کریں، اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھا جا سکے، نیز انہیں بنیادی ماخذوں سے رجوع کرنے کی عادت پڑے، اس لیے طلبہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ کام خود کریں، طلبہ کے لیے کوئی اور شخص مفت یا معاوضہ لے کر تیار کر کے دے تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں دھوکا دہی، جھوٹ اور نوجوان نسل کو کاہل بنانے کا عنصر شامل ہے، ایسے کرنے سے طلبہ میں بنیادی ماخذوں سے علم حاصل کرنے کا ملکہ پیدا نہیں ہو گا اور وہ تحقیق کے میدان میں کمزور ہو جائیں گے۔
البتہ یہ درست ہے کہ طالب علم دیگر تحقیقات سے استفادہ کرے، یا خود انٹرنیٹ سے لے، اور کچھ جزئیات میں اپنے دوستوں سے رہنمائی لے، یہ طریقہ کار تو تمام محققین کا ہے، لیکن پوری کی پوری تحقیق ہی کسی کی چوری کرے تو یہ دھوکا بھی ہے اور جھوٹ بھی ہے، چاہے وہ طالب علم نے خود لی ہو یا انٹرنیٹ سے ۔ پھر جس استاد نے بچوں کے اس عمل کو درست سمجھا، یا انہیں اس کام کی ترغیب دی ہے وہ بھی گناہ میں شریک ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (95893 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ نے یہ بہت اچھا کیا کہ آپ اب طلبہ کی اسائنمنٹ تیار نہیں کر رہے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی گزشتہ غلطی کو معاف فرمائے، غلط کام چھوڑنے پر اجر دے، اور اللہ تعالی اپنی طرف سے خصوصی طور پر وسیع رزق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم