"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
" غير اللہ كى قسم اٹھانا مثلا كعبہ كى قسم، يا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى قسم، يا نيك و صالح شخص اور ولى كى قسم يا فلان كے سر كى قسم، يا فلان كے مقام و مرتبہ اور شرف كى قسم، يہ سب شرك ہے، جيسا كہ درج ذيل صحيح حديث ميں آيا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى غير اللہ كى قسم اٹھائى اس نے شرك كيا "
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم نہ تو اپنے آباء اجداد كى قسم اٹھاؤ اور نہ ہى شريكوں كى اور سچائى كى حالت كے بغير اللہ كى قسم مت اٹھاؤ "
اس ليے جس شخص نے بھى غير اللہ كى قسم اٹھائى اس پر وہ كام كرنا لازم نہيں جس پر اس نے قسم اٹھائى ہے؛ كيونكہ يہ قسم قابل احترام نہيں.
اور سائل كا لفظ مجمل ہے اور اس ميں احتمال پايا جاتا ہے:
چنانچہ اگر اس نے اس كا ارادہ كيا تھا جو بيان ہوا ہے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا، نہ تو كفارہ اور نہ ہى كچھ اور، اور نہ ہى طلاق لازم آتى ہے.
ليكن اگر سائل كا حلف سے مقصود طلاق تھا مثلا وہ كہے اگر ميں نے فلاں سے كلام كى تو تجھے طلاق، يا پھر اگر ميں نے ايسے كيا تو ميرى بيوى كو طلاق، تو اس ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے.
كچھ علماء كرام كى رائے ميں يہ قسم توڑنے كى صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى، اور كچھ علماء كرام كہتے ہيں: اگر قسم اٹھانے والا كا مقصد اپنے آپ كو يا كسى دوسرے كو كسى كام سے روكنا مقصود تھا، يا پھر كسى كام پر آمادہ كرنا تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ اس پر كفارہ ہوگا.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا اور اسى كا فيصلہ ديا ہے اور عصر حاضر كے علماء كرام جن ميں ہمارے شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ شامل ہيں نے بھى يہى فتوى اختيار كيا ہے. واللہ اعلم.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحتيں نازل فرمائے " انتہى .