"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جس عقد نكاح كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے اگر تو اس ميں نكاح كے اركان اور شروط پورى تھيں كہ ايجاب و قبول ہوا اور ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں عورت كى رضامندى كے ساتھ نكاح ہوا تو يہ عقد نكاح صحيح ہے جس كے نتيجہ ميں اس كے اثرات مرتب ہونگے، اور اس طرح وہ عورت آپ كى بيوى بن جائيگى چاہے اعلان اور مشہور نہيں ہوا، اور چاہے سركارى طور پر اسے رجسٹر بھى نہيں كرايا گيا.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى كے بغير نكاح نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) اسے ابو موسى اشعرى رضى اللہ عنہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
سركارى ادارے سے عقد نكاح كى توثيق كروانى نكاح صحيح ہونے كے ليے شرط نہيں، ليكن اس سے حقوق كى حفاظت ضرور ہوتى ہے اس ليے نكاح رجسٹر ضرور كروانا چاہيے، ليكن طلاق كا سرٹيفكيٹ حاصل كرنے كے ليے اس ميں تاخير كرنا كوئى نقصاندہ نہيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو بركت دے بابركت بنائے اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع ركھے، ہم آپ كو اللہ كے تقوى كى نصيحت كرتے ہيں، اور اپنى بيوى كے ساتھ حسن سلوك كريں ايك نيك و صالح مسلمان گھر بنائيں.
واللہ اعلم.