اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

ويب سائٹ كى فيس ادا كر كے انعامى مقابلہ كے سوالات كا جواب دينا

24-09-2008

سوال 108591

درج ذيل انعامى مقابلہ كا حكم كيا ہے:
انٹرنيٹ پر ايك ويب سائٹ انعامى مقابلہ كا كارڈ پچيس ڈالر ميں فروخت كرتى ہے، اور اس كى خريدارى پر مقابلہ ميں شركت كر كے سوالات كے جواب دے كر بغير كسى قرعہ اندازى كے انعام حاصل كيا جا سكتا ہے، مقابلہ ميں تيس سوالات ہيں، اور ہر دس سوالات كا ايك مرحلہ شمار ہوتا ہے، مثلا آپ نے پندرہ سوالات كے جواب صحيح ديے، اور 16 سولہويں سوال كا جواب غلط تو آپ دس سوالات كا انعام حاصل كر سكتے ہيں، اور اسى طرح ہر دس سوالات كے مرحلہ كا انعام. ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ انعامى مقابلہ قمار بازى اور جوا كى صورتوں ميں سے ايك صورت اور شكل ہے، اور قمار بازى كو اللہ سبحانہ و تعالى نے قطعى طور پر حرام كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں، شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ رہو تا كہ تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوئے كے ذريعہ تمہارے آپس ميں ميں عدوات اور بغض پيدا كر دے اور تمہيں اللہ تعالى كى ياد اور نماز سے روك دے تو اب بھى باز آ جاؤالمآئدۃ ( 90 ).

الماوردى رحمہ اللہ جوے كے متعلق كہتے ہيں:

جوا يہ ہے كہ جس ميں داخل ہونے والا كچھ لينے والا بن جائيگا اگر اس نے ليا، يا پھر نقصان اٹھانے والا ہو گا اگر اس نے ديا " انتہى

ديكھيں: الحاوى الكبير ( 15 / 192 ).

اور اس معاملہ اور مقابلہ ميں بھى يہ چيز موجود ہے، كيونكہ اس ميں شركت كرنے والا شخص يا تو شركت كى فيس سے بھى ہاتھ دھو بيٹھتا ہے، يا پھر اگر سوالات كے جوابات دے ديے تو ادائيگى سے زيادہ رقم حاصل كر ليتا ہے.

اور حرمت كا ايك سبب يہ بھى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تير اندازى، يا اونٹ يا گھوڑے كے مقابلہ كے علاوہ كسى ميں بھى معاوضہ اور انعامى مقابلہ نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1700 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2574 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3586 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2878 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

السبق: وہ انعام ہے جو دوڑ ميں حصہ لينے والا حاصل كرتا ہے.

النصل: تير اندازى.

الخف: اونٹ.

الحافز: گھوڑا.

نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ تين اشياء اس ليے ذكر كى ہيں كہ يہ جہاد فى سبيل اللہ ميں استعمال ہونے كے آلات ہيں.

ليكن بعض علماء كرام نے اس كے ساتھ ان اشياء كو بھى ملحق كيا ہے جو اس كے معنى ميں ہوں اور ان سے جھاد فى سبيل اللہ، اور دين كى نصرت و معاونت ميں مدد لى جاتى ہو، مثلا گدھوں اور خچروں كى دوڑ، اور اسى طرح دينى اور فقھى، اور قرآن مجيد اور حديث شريف حفظ كرنے كے مقابلے منعقد كرانا، يہ جائز ہيں، اور ان ميں عوض خرچ كرنا جائز ہے.

اس ليے انعامى مقابلوں ميں حصہ لينے كے ليے فيس اور مال كى ادائيگى جائز نہيں، پھراگر وہ اس ميں كامياب ہو جائے تو انعام حاصل كريگا، صرف ان مقابلوں ميں شركت كرنا جائز ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالنص بيان كيے ہيں.

واللہ اعلم .

کھیل اور مقابلے
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔