"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
خاوند كا اپنے بيٹے سے كہنا: " اگر تم مزاحمت سے نہ ركے تو ميں تمہارى ماں كو كہوں گا: تجھے طلاق " صرف اس قول سے طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ تو طلاق دينے كى دھمكى ہے كہ اگر وہ مزاحمت كرتا رہا تو اگر خاوند چاہے تو اس وقت طلاق دے دے، ليكن اگر نہ چاہے تو طلاق نہ دے.
دوم:
غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق ميں تفصيل پائى جاتى ہے جس كا بيان سوال نمبر ( 45174 ) كے جواب ميں ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
خاوند كو اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے، اور اسے چاہيے كہ اگر وہ حقيقتا طلاق نہيں دينا چاہتا تو وہ خوشى اور غصہ كى حالت ميں طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، ليكن اگر طلاق دينى ہى ہے تو پھر طلاق كے انجام پر غور خوض كرنے كے بعد يہ اقدام كرے.
كيونكہ طلاق غصہ ٹھنڈا كرنے يا پھر تفريح و تسلى كے ليے مشروع نہيں كى گئى، بلكہ يہ تو ايك پختہ ازدواجى تعلقات كا خاتمہ ہے جب اسے ختم كرنے كى ضرورت محسوس تو اسے استعمال كيا جا سكتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنى رضامندى و خوشى والے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .