اسلام سوال و جواب

اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

رجم كى آيت كا علم صرف عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو ہى نہيں

13-01-2009

سوال 111382

صحيح بخارى كے باب الاحكام ميں عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے:
" اگر لوگ رجم كى آيت كے متعلق نہ كہيں تو ميں اسے اپنے ہاتھوں سے لكھ دو "
اس آيت كو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كوئى اور كيوں نہيں جانتا ؟
اور اس كے متعلق دريافت كرنے والے كو ہم كيا جواب ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بخارى اور مسلم نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے خطبہ جمعہ ميں فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حق كے ساتھ مبعوث كيا، اور ان پر كتاب نازل كى، اور اللہ تعالى نے جو نازل كيا اس ميں رجم كى آيت تھى، ہم نے اسے پڑھا، اور سمجھا اور ياد كيا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رجم كيا، اور ان كے بعد ہم نے بھى رجم كيا، مجھے خدشہ ہے كہ لوگوں پر لمبا وقت گزرے اور كوئى كہنے والا يہ كہنے لگے:

اللہ كى قسم ہم تو كتاب اللہ ميں رجم كى آيت نہيں پاتے، تو اللہ كا نازل كردہ فريضہ ترك كرنے كى وجہ سے وہ گمراہ ہو جائينگے، اور شادى شدہ مرد اور عورت كے زنا كرنے پر دليل ثابت ہو جانےيا حمل ہو جانے يا اعتراف كرنے پر رجم كرنا كتاب اللہ ميں حق ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6830 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1691 ).

اور ابو داود ميں يہ الفاظ زائد ہيں:

" اللہ كى قسم اگر لوگ يہ كہيں كہ عمر نے كتاب اللہ ميں زيادہ كر ديا ہے تو ميں اسے لكھ ديتا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4418 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں كئى ايك جگہ ذكر كى ہے مثلا كتاب الحدود حديث نمبر ( 6829 ) اور ( 6830 ) اور كتاب الاعتصام و السنۃ حديث نمبر ( 7626 ) ميں، ليكن سوال ميں وارد الفاظ:

" اگر لوگ نہ كہيں... الخ "

ان روايات ميں نہيں ہيں.

اور اس حديث كو امام بخارى رحمہ اللہ نے كتاب الاحكام ميں بغير سند كے متعلق بيان كيا ہے كہ:

" عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

" اگر لوگ يہ نہ كہيں كہ عمر نے كتاب اللہ ميں زيادہ كر ديا ہے تو ميں اپنے ہاتھ سے رجم كى آيت لكھ دوں "

اور اس طرح كى روايت كے متعلق يہ نہيں كہا جا سكتا كہ امام بخارى نے اسے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے، ليكن اس كے ساتھ يہ ضرور كہا جائيگا كہ امام بخارى نے اسے معلقا روايت كيا ہے.

اور ابو داود نے اسے موصول روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح كہا ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

دوم:

عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كوئى اور اس آيت كو كيوں نہيں جانتا تھا ؟

يہ سوال كرنے والے كو جواب ديا جائيگا:

اس آيت كا علم صرف عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ہى نہ تھا، بلكہ كئى ايك صحابہ كرام سے اس اس كا ثبوت ملتا ہے.

ابن ماجہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں:

" يقينا رجم كى آيت نازل ہوئى، اور يہ ميرے پلنگ كے نيچے صحيفہ ميں تھى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1944 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور مسند احمد ميں على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى سے بھى اس كا ثبوت ملتا ہے، ليكن اس كى سند ضعيف ہے.

مسند احمد حديث نمبر ( 1214 ).

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے كہ:

" اس آيت كا ثبوت ابى بن كعب، اور زيد بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہما سے بھى ملتا ہے "

اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس آيت كو خطبہ جمعہ ميں منبر پر ثابت كيا، اور اس خطبہ ميں بڑے بڑے صحابہ كرام اور فقھاء حاضر تھے، اور ان سب نے اس آيت كے ثبوت كا اقرار كيا، اور كسى ايك نے بھى اس كا انكار نہيں كيا، تو پھر اس كے بعد يہ كيسے كہا جا سكتا ہے يہ آيت عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے علاوہ كسى كو معلوم نہ تھى ؟!

سوم:

رجم كى آيت اس ميں شامل ہوتى ہے جسے علماء كرام " اصول فقہ " ميں منسوخ ہونے كى بحث ميں بيان كرتے ہيں، كہ يہ آيت وہ ہے جس كے الفاظ منسوخ ہو چكے ہيں، اور اس كا حكم باقى ہے، تو يہ آيت قرآن كريم ميں شامل نہيں كى جا سكتى، ليكن اس كا حكم باقى ہے منسوخ نہيں ہوا، ہو سكتا ہے يہى وہ سبب ہے جس كى بنا پر عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے قرآن ميں اسے نہيں لكھا، كيونكہ اس كى تلاوت منسوخ ہو چكى تو يہ قرآن ميں شمار نہيں كى جا سكتى، تو اس طرح اس كا قرآن ميں لكھنا جائز نہ ہوا

ديكھيں: المنتقى شرح الموطا حديث نمبر ( 1560 ).

واللہ اعلم .

تعزیری سزائیں اور حدود
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔