"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنى نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.
اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر مردانہ یا زنانہ کوئی عضو ہی نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.
2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.
دوسرى قسم:
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ عمدا حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار کرتا ہے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، چنانچہ خنثی کے مقابلے میں مخنت کے مرد ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے.
3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: خننثى مشكل اور خنثى غير مشكل.
ا ـ خنثى غير مشكل:
جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ تعین ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد اعضاء پائے جاتے ہیں، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اعضاء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں علامات کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
ب ـ خنثى مشكل:
يہ وہ ہے جس ميں مردانہ یا زنانہ کسی قسم كى علامات ظاہر نہ ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.
تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:
ايك تو وہ جس كے دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور دوسری ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو۔
4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى آلہ تناسل سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر اندام نہانی سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہوگی۔
اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا:
اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى کا اخراج ہو، يا اسکی وجہ سے عورت حاملہ ہوجائے، يا اس تك پہنچ جائے تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.
اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب مد مقابل علامات پر مقدم كيا جائےگا۔
اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر سابقہ تمام نشانیاں موجود نہ ہوں تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ خنثی مشكل ہے.
سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہوتا ہے. انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 ).
دوم:
الخنثى: [یعنی خنثى مشكل ] اس كے دونوں آلے يعنى مردانہ اور زنانہ دونوں عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:
ايكٍ تو ايسى قسم ہے جس کے بارے میں مرد یا عورت کا حکم لگانا ممکن نہیں، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارے ميں تعیین کی جاسکتی ہو، اس كى علامات ميں ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہو گى.
اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہو گا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہو گا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہو گى.
اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہو سكتا ہے وہ كسى بيمارى كے سبب جنسى طور پر کمزور ہو، اس كا ہیجڑا پن كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ مخنث ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.
ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ:
اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كر سكتى ہے؟!
اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خنثى يا تو مشكل ہو گا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے.
اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے:
خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں ہیجڑے کی اپنی بات معتبر ہوگی اور اسے مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ یہ ایسی بات ہے جو اسی جنس سے تعلق رکھنے والا ہی کہہ سکتا ہے، اور اس میں کسی پر زبردستی بھی نہیں ہوگی، تو بالكل اسکی بات معتبر ہوگی جیسے عورت کی بات حيض اور عدت ميں قبول کی جاتا ہے، وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے.
اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ايك ايسا معاملہ ہے جسے کوئی اور نہیں جان سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، چنانچہ جب ظاہرى علامات کے ذریعے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تو ہمیں مجبورا اندرونی معاملات پر کی طرف رجوع کرنا پڑا"
ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 ).
اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو پھر كيا كرے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نكاح كے باب ميں " خنثى مشكل " جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضائے تناسل ہوں، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور دونوں سے پیشاب کرنے کی وجہ سے يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت ، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس ليے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى.
وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہو جائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كر لے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا۔
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 ).
اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور اگر اسے شہوت آتی ہو لیکن وہ شرعى طور پر شادى نہیں کرسکتا تو اب وہ كيا كرے ؟
ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے "
تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو.
اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اسے ٹھنڈا کردیں، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے سے بہتر ہے.
ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 ).
ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ:
شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق دیا جائے گا؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں "
اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے:
" العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے.
حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ کے داداـ شامل ہيں، انہوں نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو فوراً فسخِ نکاح كا اختيار حاصل ہے.
اور جمہور کی دلیل وہ وقعہ ہے جس میں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مہلت دی تھى ؛ اور اسکی دلیل یہ بھی ہے كہ بیوی شادی عفت اور عصمت کیلئے کرتی ہے، اور شادی ہی واحد راستہ ہے جس سے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے، چنانچہ اگر شادی کی کسی صورت میں یہ ہدف حاصل نہ ہو تو فریقین کو فسخ کا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے تواس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، جبکہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 )
ليكن بعض اوقات کوئی عورت جو عمر رسیدہ يا كسى مرض كى بنا پر شہوت سے خالی ہو تو وہ راضى ہو سكتى ہے، تو پھر خدمت اور انس و محبت، نان ونفقہ، باہمی تعاون اور دوسرے مقاصد نكاح كے ليے اس سے شادى كرنے ميں كيا مانع ہے ؟
شيخ ابراہيم بن محمد بن سالم ضويان الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور جس كو شہوت نہيں مثلا عنين اور بڑى عمر كے شخص كے ليے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ شريعت ميں اس كى ممانعت نہيں ہے.
ديكھيں: منار السبيل ( 2 / 911 ).
" العنين " جماع سے عاجز شخص كو كہتے ہيں، اور بعض اوقات وہ جماع كى خواہش تو ركھتا ہے ليكن وہ جماع نہيں كر سكتا.
اگر بيوى كو معلوم ہو جائے كہ خاوند جنسى طور پر كمزور ہے اور وہ اس كے ساتھ رہنے پر راضى ہو جائے تو بيوى كا حق فسخ ساقط ہو جائيگا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر اس نے [نکاح کے] وقت كہا كہ: ميں وطئ سے عاجز شخص پر راضى ہوئى تو مستقل طور پر اس كا اختيار ساقط ہو جاتا ہے"، مثلا ايسى عورت جو جماع كى استطاعت نہ ركھنے والے خاوند پر راضى ہو گئى، اور پھر باقى عورتوں كى طرح اس عورت كو بھى نكاح كى شہوت پيدا ہو گئى اور وہ اپنا نكاح فسخ كرنا چاہے تو ہم كہيں گے:
تمہیں كوئى اختيار نہيں، اور اگر وہ كہے كہ: اس وقت تو ميں اس كو پسند كرتى اور اس پر راضى تھى، ليكن اب مدت زيادہ ہو گئى ہے اور ميں اس كو نہيں چاہتى، تو ہم اسے كہيں گے: اب تجھے كوئى اختيار نہيں، كيونكہ يہ كوتاہى تيرى جانب سے ہى تھى "
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 211 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 102553 ) اور ( 10620 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خنثى يعنى ہيجڑے كى اگر حقيقت حال كا علم نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، تو اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر اس كى حالت واضح ہو كہ وہ مرد ہے: تو اس كى شادى كرنا صحيح ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ ایسی حالت ميں ڈاكٹر سے رائے طلب كى جائے جو موروثی بیماریوں اور اس صورتِ حال کا ماہر ہو تا كہ اس كى حالت اور اس سے شادى كے امكان كى وضاحت کرسکے.
ليكن جنسى طور پر كمزور يا پھر جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى صحيح ہے، ليكن شادى سے قبل اسے اپنى حالت بيان كرنا ضرورى ہے، اگر وہ حالت بيان اور واضح كرتا ہے تو اس كى اس كے ساتھ صحيح ہے جسے علم ہو كہ وہ اسى حالت ميں اس كے ساتھ رہ سكتى ہے، مثلا كہ عورت بھى اسى طرح كى ہو اور اسے مردوں كى خواہش نہ ہو، ليكن نوجوان لڑكى تو شادى ميں وہى كچھ چاہتى ہے جس طرح دوسرى نوجوان لڑكىاں چاہتى ہیں.
اس ليے ہم ايسا كرنے کا مشورہ نہیں دینگے كيونكہ ہو سكتا ہے وہ عورت خيال كرے كہ وہ صبر كر لے گى، ليكن بعد ميں وہ صبر نہ كر سكے، اور جو اسے حاصل نہيں ہو سکا اسکے لئے حرام كے متعلق سوچنا شروع كر دے ـ اللہ اس سے محفوظ ركھے ـ.
بہر حال معاملہ جو بھى ہو: ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ خطرات میں مت پڑیں، اور ایسی شخصیت کے مالک آدمی سے شادی کرکے اپنے آپ کو دھوکے میں مت ڈالیں.
واللہ اعلم .