"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميرى بيوى كا ماموں پچيس برس كا جوان ہے اس كى عادت ہے كہ جب بھى وہ بھانجى كو ملتا ہے اسے اپنے ساتھ لگاتا اور اس كا بوسہ ليتا ہے، ميں نے بيوى كو كہا كہ وہ اس كے ساتھ مت لگا كرے اور نہ ہى وہ اسے بوسہ ديا كرے، يا وہ ميرى غير موجودگى ميں ميرے گھر نہ آئے، اس كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ.
محرم مردوں كا اپنى محرم عورتوں كا بوسہ لينا مثلا ماں يا بہن يا بيٹى كا بوسہ لينے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح اگر فتنہ و خرابى كا خدشہ نہ ہو تو پھوپھى يا خالہ كا بوسہ لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں، اور يہ بوسہ رحمت و شفقت اور مودت كا ہو نہ كہ لہو لعب اور بطور مزاح چہ جائيكہ يہ بوسہ شہوت كا ہو.
اور آدمى كا اپنى چھوٹى عمر كى بھتيجى يا بھانجى كا بوسہ لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں، ليكن اگر نوجوان ہو اور پھر شادى شدہ تو پھر ايسا نہيں كرنا چاہيے كيونكہ شيطان انسان ميں خون كى طرح سرايت كر جاتاہے اور بوسہ لينے سے شہوت انگيخت ہونے يا پھر شيطان اس كے ليے ايسا وسوسہ ڈال سكتا ہے جو جائز نہيں، ليكن اگر بڑى عمر كى ہو تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں.
اور جب آدمى بھى جوان ہو اور اس كى بھانجى بھى جوان ہو تو اس حالت ميں اس كا بوسہ لينا اور معانقہ كرنا قبيح عمل ہے اور يہ شہوت انگيزى اور شر و فساد كے حصول كى جگہ ہے، اس ليے بہتر يہى ہے كہ ايسا كرنے سے منع كيا جائے، اور آپ كى بيوى كو اس سلسلہ ميں آپ كى اطاعت كرنى چاہيے، اور آپ كى غير موجودگى ميں اپنے ماموں كا استقبال نہيں كرنا چاہيے، اور اس سلسلہ تساہل اختيار كرنا غيرت ميں كمزورى كى دليل ہے.
كتنى ہى خرابياں اور افسوس و غم حاصل ہوئے ہيں خاص كر اس دور ميں جبكہ دين امور ميں كمزورى پيدا كر لى گئى ہے اور احتياط كى قلت پائى جاتى ہے، يہ محرم شخص پر تہمت نہيں بلكہ يہ اس كے ليے خير و بھلائى ميں معاونت ہے، اور اسے فتنہ و فساد اور شر سے محفوظ ركھنے كے ليے اس كى حمايت ہے شريعت اسلاميہ نے مفاسد يعنى خرابى والى اشياء كو دور كرنا اور مصلحت كو لانا مقرر نہيں كيا ہے اور فتنہ و فساد كى طرف لے جانے والے طرق كو بند كيا ہے.
اور بعض معاشروں ميں يہ عادت بن چكى ہے كہ جب نوجوان آپس ميں ملتے ہيں تو ايك دوسرے كا بوسہ ليتے ہيں اس كا انكار كرنا اور انہيں اس سے روكنا ضرورى ہے، اور بعض تو اس حد تك جا چكے ہيں كہ جب بھى اپنے محرم كو ديكھتے ہيں تو اس كا بوسہ ليتے ہيں، اور اس سے بھى برى عادت يہ ہے كہ چچا اور پھوپھى اور ماموں اور خالہ كى بيٹى كا بوسہ ليا جاتا ہے، يہ ان عادات ميں شامل ہوتى ہے جو مسلمانوں ميں باہر سے سرايت كر چكى ہيں.
وگرنہ تو مسلمان اس طرح كا ملاپ اور بوسہ سے واقف تك نہ تھے، اور چچا پھوپھى اور خالہ اور ماموں كى بيٹى كا بوسہ لينا تو واضح طور پر حرام ہے اس ميں كوئى شك نہيں كيونكہ يہ سب اجنبى عورتيں ہيں اور يہ محرم نہيں ان كے ساتھ تو مصافحہ كرنا بھى جائز نہيں چہ جائيكہ ان كا بوسہ ليا جائے.
امام ترمذى رحمہ اللہ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
” ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں كوئى ايك اپنے بھائى يا دوست تو ملتا ہے تو كيا وہ اس كے ليے جھك جايا كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نہيں
اس شخص نے عرض كيا: كيا وہ اس سے معانقہ كرے اور اس كا بوسہ ليا كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” نہيں ”
تو اس شخص نے عرض كيا: كيا وہ اس كا ہاتھ پكڑ كر اس سے مصافحہ كيا كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2728 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس حديث كو صحيح سنن ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
نوجوانوں ميں ايك عادت ہے كہ وہ جب بھى آپس ميں ملتے ہيں تو ايك دوسرى كے رخسار كا بوسہ ليتا ہيں، اور يہ عادت علماء كے ساتھ مساجد ميں اور اساتذہ كے ساتھ كلاس روم ميں بھى عام ہو چكى ہے، تو كيا يہ سنت كے مخالف ہے يا اس ميں كوئى حرج نہيں، يا يہ بدعت اور معصيت و گناہ ہے يا جائز ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” ملاقات كے وقت تو السلام عليكم كہنا اور ہاتھ سے مصافحہ كرنا مشروع ہے، اور اگر يہ ملاقات سفر كے بعد ہو تو اسى طرح معانقہ بھى مشروع ہے؛ كيونكہ حديث ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے ثابت ہے كہ:
” جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام آپس ميں ملتے تو وہ ايك دوسرے سے مصافحہ كيا كرتے تھے، اور جب سفر سے واپس آتے تو وہ معانقہ كيا كرتے تھے ”
رہا رخسار كا بوسہ لينے كا مسئلہ تو ہمارے علم كے مطابق تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 128 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سب كو اپنے پسنديدہ اور رضا كےكام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .