"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اہل بیت کی عام لوگوں کے مقابلے میں کیا فضیلت ہے؟ اور کیا وہ قیامت کے دن لوگوں کی سفارش کریں گے؟
الحمد للہ.
اول:
ہم نے پہلے سوال نمبر: (10055 ) کے جواب میں واضح کر دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کون ہیں؟ اور وہاں پر ہم نے جواب کے آخر میں بتلایا ہے کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت میں : آپ کی ازواج مطہرات، آپ کی اولاد، بنو ہاشم، بنو عبد المطلب اور ان کے آزاد کردہ غلام شامل ہیں" ختم شد
دوم:
اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کو متعدد فضائل سے نوازا ہے اور اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ان سے محبت کرنا، اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنا واجب ہے۔
جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت ہیں، ان کے حقوق کی پاسداری کرنا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے خمس اور مال فے میں ان کا حق رکھا ہے، اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجتے ہوئے اہل بیت کے لیے بھی دعا کرنے کا حکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
ترجمہ: یا اللہ! محمد اور آل محمد پر رحمت نازل فرما جیسے تو نے آل ابراہیم پر رحمت نازل فرمائی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ نیز محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ "
"مجموع الفتاوى" ( 3 / 407 )
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت ہیں ، ان سے محبت رکھنا، انہیں اپنا دوست بنانا، اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا واجب ہے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " ( 28 / 491 )
سوم:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کے درج ذیل فضائل بھی ہیں:
1-فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفاً . وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً ترجمہ: اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہٰذا صاف سیدھی بات کرو ۔ [32] اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہل بیت !اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کر کے تمہیں اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔ [الاحزاب: 32 -33] اس آیت میں مذکور فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ صحیح احادیث کی روشنی میں دیگر افراد بھی اس فضیلت میں شامل ہیں۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح سویرے نکلے ، آپ کے تن پر ایک سیاہ بالوں کی بنی ہوئی دھاری دار موٹی چادر تھی، تو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ نے انہیں اپنی چادر میں داخل کر لیا، پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہما آئے تو آپ نے انہیں بھی اپنی چادر میں داخل کر لیا، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو انہیں بھی داخل کر لیا، ان کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں داخل کر کے فرمایا: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً یعنی: اے اہل بیت !اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی دور کر کے تمہیں اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔
اس حدیث کو امام مسلم: (2424) نے روایت کیا ہے۔
2- فرمانِ باری تعالی ہے:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ترجمہ: بلاشبہ نبی مومنوں کے لئے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم ہے اور آپ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔ [الاحزاب: 6]
3- سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً اللہ تعالی نے کنانہ کو اسماعیل کی اولاد سے منتخب کیا، اور پھر قریش کو کنانہ کی اولاد سے منتخب کیا، اور پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے چنیدہ بنایا۔) اس حدیث کو امام مسلم: (2276) نے روایت کیا ہے۔
4-سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی والی جگہ جسے خم کہا جاتا ہے وہاں کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلے اللہ تعالی کی حمد بیان کی، اور ثنا خوانی فرمائی، آپ نے وعظ و نصیحت بھی فرمائی، اور پھر کہا: (بعد ازاں: لوگو! یقیناً میں بشر ہوں ، امکان ہے کہ میرے پاس میرے رب کا پیغام رساں آ جائے اور میں اس کی بات مان لوں۔ میں تمہارے اندر دو وزنی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ان دونوں میں سے ایک اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، اس لیے تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام کر رکھو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتاب اللہ پر عمل پیرا رہنے اور اسے مضبوطی سے تھامنے کی خوب ترغیب دلائی، اور پھر [دوسری چیز ذکر کرتے ہوئے کہا:] (اور میرے اہل بیت، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اللہ کا حکم یاد دلاتا ہوں۔) اس حدیث کو امام مسلم: (2408) نے روایت کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس وصیت کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام نے بھر پور خیال کیا، ان میں سر فہرست سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، اور پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔
جیسے کہ بخاری: (3508) اور مسلم: (1759) میں ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت داروں کا خیال رکھنا میرے نزدیک میرے اپنے رشتہ داروں خیال رکھنے سے زیادہ اہم ہے"
اسی طرح صحیح بخاری: (3509) میں یہ بھی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیال رکھنا ہے تو ان کے اہل بیت کا خیال رکھو۔"
اس کی وضاحت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول: "جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خیال رکھنا ہے تو ان کے اہل بیت کا خیال رکھو۔" کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ خیال رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی حفاظت کرو، ان کے حقوق پامال مت کرو، انہیں تکلیف مت دو اور نہ ہی ان کے ساتھ بد سلوکی کرو۔" ختم شد
" فتح الباری " ( 7 / 79 )
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رشتہ داروں کا بھر پور خیال رکھتے تھے، اور یہ چیز کئی امور میں بالکل واضح ہوئی، مثلاً: تحائف وغیرہ دیتے ہوئے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کو دیتے، بعد میں خود لیتے اور لوگوں کو دیتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جب دیوان عطیات مرتب کیا تو لوگوں کی ترتیب نسب کے مطابق لگائی، چنانچہ سب سے پہلے انہیں ذکر کیا جن کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب ترین تھا، پھر جب عرب قبائل مکمل ہو گئے تو عجمی قبائل کا ذکر کیا، یہ دیوان خلفائے راشدین کے عہد تک ایسے ہی رہا، بلکہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں بھی ایسے ہی رہا، بعد میں جا کر یہ تبدیلی کا شکار ہوا۔" ختم شد
" اقتضاء الصراط المستقيم " ( ص 159 ، 160 )
چہارم:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کے لیے مخصوص سفارش نہیں ہے، یہ سفارش تمام صالحین، شہداء، اور علما کو ملے گی چاہے وہ اہل بیت سے ہوں یا دیگر مسلمانوں میں سے ہوں۔
ہم نے سوال نمبر: (21672) میں واضح کیا ہے کہ:
"گناہ گاروں اور نافرمانوں کے لیے شفاعت صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ دیگر لوگ بھی شامل ہیں، جن میں انبیائے کرام، شہدا، علما، صالحین اور فرشتے شامل ہیں، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ انسان کے لیے اس کا اپنا نیک عمل سفارشی بن جائے، البتہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مجموعی طور پر سفارش میں سب سے زیادہ حصہ ہو گا۔" ختم شد
اس ساری تفصیلات سے غلو کرنے والے رافضی حضرات کی طرف سے کیے جانے والے دعوے کا رد ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کو خصوصی طور پر شفاعت کا حق حاصل ہو گا، صرف اسی پر بس نہیں رافضیوں کی کتابوں میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ اہل بیت ہی لوگوں کو جنت اور جہنم میں داخل کریں گے! اہل بیت کے متعلق غلو کرتے ہوئے انہوں نے ایک لمبی فہرست تیار کی ہوئی ہے جس کا ماخذ صرف اللہ کے دین سے لاعلمی ، اور کتاب و سنت کی نصوص سے دوری ہے۔
ہم فضیلۃ الشیخ عبد المحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ کے مقالے: { فضلُ أهل البيت وعلوُّ مكانتِهم عند أهل السُّنَّة والجماعة} کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیں گے، اس جواب کی تیاری میں ہم نے اس سے استفادہ کیا ہے، اصل کتاب میں اس موضوع سے متعلق دیگر مباحث بھی ہیں، یہ مقالہ اگرچہ مختصر ہے لیکن مفید بہت ہے، آپ اس مقالے کو درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں .
واللہ اعلم