اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

نماز عيد كا اعلان كرنا

18-09-2009

سوال 122337

بعض اوقات نماز عيد سے قبل اعلان كيا جاتا ہے " صلاۃ العيد اثابكم اللہ " اللہ آپ كو اجروثواب دے نماز عيد كھڑى ہو رہى ہے، اگر ان اشياء پر لوگ اصرار كريں تو آدمى كيا كرنا چاہيے، آيا وہ گھر ميں نماز ادا كر لے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فقھاء كا اتفاق ہے كہ نماز عيد كے ليے اذان اور اقامت مشروع نہيں ہے.

صحيح مسلم ميں ابن جريج سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے عطاء نے ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصارى رضى اللہ عنہم سے بيان كيا دونوں نے فرمايا:

" عيد الفطر اور عيد الاضحى كے دن اذان نہيں كہى جاتى تھى "

ابن جريج رحمہ اللہ كہتے ہيں: پھر نے ان ـ يعنى عطاء ـ سے كچھ مدت بعد اس كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے مجھے بتايا وہ كہنے لگے: مجھے جابر بن عبد اللہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہما نے بتايا:

عيد الفطر كے دن جب امام جائے تو كوئى اعلان اور اذان نہيں ہے، اور نہ ہى نكلنے كے بعد، اور نہ اقامت اور نہ كوئى پكار وغيرہ ہے، نہ تو اس دن اعلان اور نداء ہے اور نہ ہى اقامت "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 886 ).

نماز عيد كے ليے كوئى اور الفاظ كہنے ميں بھى فقھاء كا اختلاف ہے مثلا: " الصلاۃ جامعۃ " يا اللہ تم پر رحم كرے نماز عيد " وغيرہ اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول:

ممنوع ہے، ان كا كہنا ہے كہ نماز عيد كے ليے كسى بھى الفاظ ميں اعلان نہيں كيا جائيگا، نہ تو الصلاۃ جامعۃ كہا جائيگا اور نہ ہى كوئى اور الفاظ، مالكى اور شافعى مسلك ميں دو قول سے ايك قول يہى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عطاء رحمہ اللہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے جابر رضى اللہ تعالى عنہ نے بتايا كہ جب عيد الفطر كے روز امام نكلے تو اذان نہيں ہے، اور نہ ہى امام كے نكلنے كے بعد، اور نہ ہى اقامت اور كوئى ندا اور اعلان ہے، نہ تو اس روز ندا ہے اور نہ ہى اقامت "

اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ہمارے بعض اصحاب كا كہنا ہے:

نماز عيد كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " كا اعلان كيا جائيگا، يہ امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت اتباع كا زيادہ حق ركھتى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 2 / 117 ).

اور حطاب مالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" الصلاۃ جامعۃ " كا اعلان نہيں كيا جائيگا، ابن ناجى نے اس رسالہ كى شرح ميں يہى كہا ہے جو ہم نے اپنے اساتذہ سے حاصل كيا: كہ اس طرح كے الفاظ وارد نہ ہونے كى بنا پر بدعت ہيں " انتہى.

اور شيخ يوسف بن عمر كہتے ہيں:

الصلاۃ جامعۃ كہنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے يہ بدعت ہے "

اور التوضيح " اور الشامل اور الجزولى ميں ہے كہ: " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ كى ندا لگائى جائيگى " انتہى

ديكھيں: مواھب الجليل شرح مختصر خليل ( 2 / 191 ).

اور ابن عليش المالكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور الصلاۃ جامعۃ كى آواز نہيں لگائى جائيگى يعنى يہ مكروہ ہے، يا يہ مخالف اولى ہے كيونكہ اس ميں كوئى نص وارد نہيں، اور التوضيح اور الشامل اور الجزولى ميں اس كى كراہت بيان كى گئى ہے "

اور ابن ناجى اور ابن عمر وغيرہ نے صراحت كے ساتھ اسے بدعت كہا ہے.

اور خرشى نے جو ذكر جو اسے جائز بيان كيا ہے وہ صحيح نہيں، اور اس نے جو يہ كہا ہے كہ اس ميں حديث وارد ہے وہ مردود ہے كيونكہ يہ عيد كے بارہ ميں وارد نہيں، بلكہ يہ حديث اور الفاظ تو چاند اور سورج گرہن ميں وارد ہيں، جيسا كہ التوضيح اور المواق وغيرہ ميں الاكمال سے بيان كيا گيا ہے، اور عيد كو چاند اور سورج گرہن كى نماز پر قياس كرنا صحيح نہيں كيونكہ عيد تو تكرار كے ساتھ آتى ہے اور مشہور ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں چاند اور سورج گرہن كبھى كبھار نادر طور پر ہوتا ہے.

جى ہاں " المواق " نے باب الاذان كے ابتدا ميں نقل كيا ہے كہ عياض رحمہ اللہ نے الصلاۃ جامعۃ كو ہر اس نماز سے پہلے كہنا مستحسن قرار ديا ہے جس كے ليے اذان نہيں ہوتى، ليكن مصنف نے اس پر كوئى اعتراض نہيں كيا " انتہى

ديكھيں: منح الجليل شرح مختصر خليل ( 1 / 460 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" جب امام نماز عيد كے ليے كھڑا ہو تو وہ تكبير تحريمہ سے شروع كرے، اور لوگوں كو نماز عيد سے قبل " الصلاۃ جامعۃ " اور نہ ہى نماز عيد كے الفاظ مت كہے؛ كيونكہ اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ " الصلاۃ جامعۃ " تو چاند اور سورج گرہن كى نماز كے ليے كہا جاتا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 314 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بعض علماء كا كہنا ہے: اور مذہب بھى يہى ہے كہ: نماز استسقاء يعنى بارش اور عيدين كى نماز كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " كے الفاظ كہے جائيں گے، ليكن يہ قول صحيح نہيں، اور اس كو سورج اور چاند گرہن كى نماز پر دو وجہ سے قياس كرنا صحيح نہيں ہے:

پہلى وجہ:د

چاند اور سورج گرہن كو اچانك ہوتا ہے، خاص كر پہلے دور ميں جب لوگوں كو اس كا علم ہى اس وقت ہوتا تھا جب گرہن لگ جاتا.

دوسرى وجہ:

نماز استسقاء اور نماز عيد كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ندا نہيں لگايا كرتے تھے؛ اور ہر چيز كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں سبب پايا گيا ليكن آپ نے ايسا نہيں كيا تو يہ فعل بدعت ہوگا؛ كيونكہ وہاں كوئى ايسا مانع نہيں تھا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى ندا لگانے سے روكتا.

اور اگر يہ سبب ايسا ہوتا كہ اس كے ليے ندا لگانى مشروع ہوتى تو آپ منادى كرنے والے كو ندا لگانے كا حكم ديتے.

چنانچہ صحيح يہى ہے كہ عيدين اور استسقاء كى نماز كے ليے كوئى ندا نہيں لگائى جائيگى " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 199 ).

اور شيخ سعدى رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے.

ديكھيں: المختارات الجليۃ ( 53 ).

سوال نمبر ( 47972 ) كے جواب ميں يہى قول اختيار كيا گيا ہے اور اہل علم سے اس كى تائيد بھى نقل كى گئى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

دوسرا قول:

" الصلاۃ جامعۃ " يا " الصلاۃ يرحمكم اللہ " وغيرہ دوسرے كلمات كہنا جن سے يہ محسوس ہو كہ نماز كھڑى ہونے لگى ہے كہا مشروع ہے.

يہ احناف كا قول ہے.

ديكھيں: العنايۃ شرح الھدايۃ ( 1 / 424).

اور شافعيہ كا بھى قول يہى ہے، اور حنابلہ كے بھى صحيح يہى ہے، اور ظاہريہ كا مذہب بھى يہى ہے.

ديكھيں: المحلى ( 2 / 178 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" امام شافعى اور اصحاب كا كہنا ہے: ہم نے جو بيان كيا ہے كہ چاند اور سورج گرہن پر قياس كرتے ہوئے " الصلاۃ جامعۃ " كہنا مستحب ہے، اور امام شافعى " الام " ميں كہتے ہيں: امام كے ليے مؤذن كو نماز عيد اور دوسرى اجتماعى نمازوں كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " يا " الصلاۃ " كے الفاظ كہنے كا حكم دينا پسند كرتا ہوں.

وہ كہتے ہيں: اور اگر " نماز كے ليے آؤ " كے الفاظ كہے تو ہم اسے مكروہ نہيں سمجھتے، اور اگر وہ " حيى على الصلاۃ " كے الفاظ كہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اگرچہ ميں ان سے اجتناب كرنا پسند كرتا ہوں كيونكہ يہ اذان كى كلام ميں سے ہے، اور ميں پسند كرتا ہوں كہ اذان كى سارى كلام سے بچا جائے " انتہى

ديكھيں: المجموع ( 5 / 20 ).

اور البھوتى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نماز عيد اور چاند اور سورج گرہن كى نماز كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " يا " الصلاۃ " كى ندا لگائى جائيگى "

الفروع ميں ہے:

چاند اور سورج گرہن كے ليے تو كہا جائيگا كيونكہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے، اور نماز استسقاء اور نماز عيد كے ليے " الصلاۃ جامعۃ " يا " الصلاۃ " كے الفاظ كے متعلق ايك قول يہ ہے كہ ان الفاظ كى ندا نہيں لگائى جائيگى، اور ايك قول يہ ہے كہ عيد ميں تراويح اور جنازہ كى طرح يہ الفاظ نہيں كہے جائينگے صحيح قول يہى ہے.

ابن عباس اور جابر رضى اللہ تعالى عنہم كہتے ہيں:

" عيد الفطر كے ليے جب امام نكلتا تو اذان نہيں كہى جاتى تھى، اور نہ ہى امام كے نكلنے كے بعد، اور نہ ہى اقامت اور ندا وغيرہ لگائى جاتى تھى " متفق عليہ. انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 1 / 233 ) الانصاف ( 1 / 428 ) اور الانصاف ( 2 / 459 ) ميں ہے كہ مذہب يہى ہے اور اكثر اصحاب بھى اس پر ہيں.

اور راجح پہلا قول ہى ہے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے كہ نماز عيد كے ليے كسى بھى لفط كے ساتھ ندا نہيں لگائى جائيگى، اور اگر ايسا ہو جائے تو وہاں حاضر ہونے والے پر كوئى حرج نہيں فقھاء كے ہاں يہى قول معتبر ہے.

اور اس طرح كى اشياء ميں نمازيوں كو آپس ميں اختلاف اور افتراق نہيں كرنا چاہيے، خاص كر عيد كے موقع پر؛ بلكہ اگر ممكن ہو سكے تو وہ ايسا كرنے والوں كى نرم رويہ كے ساتھ راہنمائى كرے كہ سنت سے جو ثابت ہے اس پر عمل كيا جائے تو يہى بہتر ہے، اگر تو وہ علم كر ليں تو ٹھيك وگرنہ وہ ان كے ساتھ نماز ميں شريك ضرور ہو، ان شاء اللہ اس پر كوئى گناہ نہيں ہو گا.

ليكن يہاں ہم يہ تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ جو شخص كسى دوسرے كو اس مسئلہ ميں سنت بتانا چاہے يا پھر وہ صحيح علم ميں لانا چاہے تو اسے چاہيے كہ وہ نماز عيد كے ليے لوگوں كے جمع ہونے سے قبل ايسا كرے، ليكن جب لوگ جمع ہو چكے ہوں تو پھر اس وقت كسى دوسرے كو نصيحت بڑے پيار كے ساتھ نصيحت كرنى چاہيے.

كيونكہ يہ خدشہ ہے كہ كہيں اس كے نتيجہ ميں لوگ آپس ميں اختلاف كرنے لگيں، بلكہ بات اس سے بھى بڑھ سكتى ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى والے قول و عمل كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہميں ظاہرى اور پوشيدہ فتنہ و فساد سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

نماز عیدین
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔