"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایسا شخص جسے شیطان اللہ تعالی کے متعلق بہت بڑے بڑے وسوسوں سے دوچار کرتا ہے اور وہ اس سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے اسے کیا کرنا چاہئے؟۔
الحمد للہ.
جو مشکل سائل نے ذکر کی ہے اور اسکے نتائج سے خوفزدہ ہے اس کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کو خوشی ہونی چاہئے کہ اس کے ان شاء اللہ اچھے نتائج برآمد ہونگے، کیونکہ ان وسوسوں سے ہی شیطان مومنوں پر حملہ آور ہوتا ہے تاکہ وہ انکے دلوں میں جو عقیدہ صحیحہ اور سلیمہ ہے اسے متزلزل کرے اور انہیں فکری اور نفسیاتی طور پر پریشان کرے جس کے ساتھ ان کے ایمان کو خراب اور میلا کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اگر وہ مومن ہیں تو انکی زندگی مکدر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اور اس سائل کی ہی یہ پہلی حالت نہیں اور نہ ہی یہ آخری حالت ہے بلکہ جب تک دنیا میں ایک بھی مومن باقی ہے یہ حالت باقی رہے گی اور اس طرح کے وسوسے پیدا ہوتے رہیں گے، اور پھر یہ حالت تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی پیش آتی رہی ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ چند صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سوال کرنے لگے کہ ہم اپنے نفسوں میں ایسی باتیں اور وسوسے پاتے ہیں جو کہ زبان پر لانی بہت مشکل ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا واقعی حقیقتا آپ لوگوں نے ایسا پایا ہے؟ تو انہیں نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی صریح اور واضح ایمان ہے۔صحیح مسلم-
صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے کسی ایک کے پاس آکر شیطان یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ یہ کس نے پیدا کیا ؟ حتی کہ وہ یہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب یہاں تک پہنچ جائے وہ اللہ تعالی کی پناہ میں آئے اور اس کے کہنے سے باز رہے)۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور یہ کہنے لگا کہ میں اپنے نفس میں ایسی چیز پاتا ہیں اسکے کہنے سے مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں کوئلہ اور راکھ بن جاؤں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (اس اللہ تعالی کی تعریفات ہیں جس نے اس کے معاملے کو وسوسے کی طرف لوٹادیا) سنن ابو داوود
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الایمان میں فرمایا ہے کہ: اور مومن شیطانی وسوسوں جو کہ کفر ہوتے اور ان سے سینہ تنگ ہوجاتا ہے سے آزمایا جاتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی ایک ایسی بات اپنے نفس میں پاتا ہے کہ اس زبان پر لانے سے بہتر ہے کہ وہ آسمان سے زمین پر گر پڑے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی صریح ایمان ہے۔
اور دوسری روایت میں ہے (کہ زبان پر لانی بہت مشکل ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اللہ تعالی کی تعریفات ہیں جس نے اس کے مکر کو وسوسے کی طرف لوٹا دیا) یعنی اس وسوسے کا حصول اتنی زیادہ کراہت کے ساتھ اور اسے دلوں سے نکال پھینکنا ہی صرح ایمان ہے، اس مجاہد کی طرح جس کے پاس اسکا دشمن آیا تو اس نے اسکے ساتھ لڑائی کی حتی کہ اس پر غالب آگیا تو یہ بہت عظیم جہاد ہے ۔
حتی کہ شیخ الاسلام نے یہاں تک فرمایا کہ اسی لئے طالب علموں اور عبادت گزاروں کے دلوں میں ایسے وسوسے اور شبہات پائے جاتے ہیں جو دوسروں کے ذہنوں میں نہیں ہوتے، کیونکہ (دوسرے) اللہ تعالی کی شرع اور اس کے طریقے پر نہیں چلے بلکہ وہ اپنی خواہشات اور اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہیں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے ان لوگوں کے خلاف جو کہ اپنے رب کی طرف علم وعبادت کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تو شیطان انکا دشمن ہے اور ان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دور رہیں) اھ اس سے جو مقصود ہے وہ صفحہ نمبر 147طبع انڈیا میں ذکر کیا ہے۔
میں اس سائل سے کہتا ہوں کہ: جبکہ اب آپ کے سامنے یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ شیطانی وسوسےہیں تو اس سے پوری طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہو جاؤ اور اس مشقت کو برداشت کرو اور آپکو یہ علم ہونا چاہئے کہ اگر آپ اس سے اعراض اور اسکے خلاف کوشش کرتے رہیں گے تو یہ آپ کو نقصان نہیں دے سکتا اور آپ اس کے پیچھے تیزی کے ساتھ چلنے سے باز رہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کے ان وسوسوں کو معاف کردیا ہے جو کہ ابھی سینوں میں ہی ہیں جب تک کہ ان پر عمل نہ کیا جائے اور یا پھر اس کو زبان پر نہ لایا جائے)۔ صحیح بخاری اور مسلم۔
اور اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ: کیا آپ کو جو وسوسہ ہے اسکا عقیدہ رکھتے ہيں؟ اور کیا آپ اسے حق سمجھتے ہیں؟ اور کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالی کو اس سے متصف کریں؟ تو آپ کا جواب یہی ہوگا یہ ہمارے لائق ہی نہیں کہ ہم ایسی باتیں کریں۔ اے اللہ تو ان عیبوں سے پاک ہے اور یہ بہتان عظیم ہے اور آپ اسکا انکار دل وجان اور زبان سے بھی کریں گے، اور آپ لوگوں میں سے اس بات سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ہونگے، تو پھر یہ صرف شیطانی وسوسے اور خطرات ہیں جو کہ آپ کے دل میں پیش آ رہے ہیں، اور شیطان کی طرف سے شرک کا ارادہ ہے جو کہ انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے تاکہ آپ پر دین اسلام کو خلط ملط کرے اور ہلاکت میں ڈالے۔
اور اسی لئے آپ گھٹیا اور حقیر چیزوں کے متعلق شیطان کو اپنے دل میں شک اور طعن ڈالتے ہوئے نہیں پائیں گے، تو مثلا آپ یہ سنتے ہیں کہ مشرق ومغرب میں بہت سے شہر ہیں جو کہ آبادی اور عمارتوں کے لحاظ سے بھرے پڑے ہیں تو کبھی بھی آپ کے دل میں انکی موجودگی کے متعلق شک نہیں ابھرا اور نہ انکے خراب ہونے کے متعلق ذہن میں آیا ہے کہ یہ رہنے کے قابل نہيں اور نہ ہی اس میں کوئی رہتا ہے وغیرہ۔ کیونکہ شیطان کو ان چیزوں سے غرض نہیں کہ وہ ان انسان کو ان چیزوں کے متعلق شک میں ڈالتا پھرے لیکن مومن کے ایمان کو خراب کرنے میں شیطان کی بہت بڑی غرض ہے تو وہ اسے خراب کرنے کے لئے اپنے پیدل اور سوار دستوں کے ساتھ ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے تاکہ وہ علم اور ہدایت کے نور کو اس کے دل سے ختم کرسکے، اور اسے شک وحیرانی کے اندھیروں میں گراسکے-
تو اس کے علاج کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے ایسی ناجح اور شفایابی سے نوازنے والی دوا بیان کی ہے کہ (وہ اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے اور اس سے رک جائے) تو اگر انسان اس سے رکا اور جو اللہ تعالی کے پاس ہے اسکی رغبت اور اسے طلب کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتا ہے تو یہ اللہ کے حکم سے یہ چیز اس سے زائل ہو جاتی ہے۔
تو اس موضوع کے متعلق جو بھی آپکے دل میں سوچیں آتی ہیں ان سے اعراض کریں اور اللہ تعالی کی عبادت اور اس سے دعا کرنے اور اسکی تعظیم میں مشغول رہیں۔
اور اگر وہی وسوسے جو کہ آپ پاتے ہیں کسی کو کہتے ہوئے سنیں تو اگر ممکن ہو تو آپ اسے قتل کردینگے تو اس لئے جو آپ کو وسوسے آتے ہیں انکی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ ایسے خیالات اور وسوسے ہیں جنکی کوئی اصل ہی نہیں ہے۔
اورنصیحت کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
1- ان چیزوں اور خیالات سے مکمل طور پر رک جانا اور اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
2- اللہ تعالی کا ذکر اور ان وسوسوں کے بار بار پیدا ہونے سے بچنا۔
3- عبادت میں انہماک اور اللہ تعالی کے احکام پر عمل اور اسکی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنا تو جب بھی آپ پورے انہماک اور دلجمعی سے عبادت کرینگے تو ان وسوسوں کو بھول جائینگے ان شاء اللہ۔
4- اللہ تعالی کی طرف کثرت سے رجوع اور اس معاملے سے عافیت طلب کرنی۔
میں آپ کیلئے اللہ تعالی سے ہر برائی اور غلط کام سے عافیت اور سلامتی طلب کرتا ہوں- .