"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
نكاح صحيح ہونے كے ليے دو عادل مسلمان گواہوں كا ہونا شرط ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" دو مسلمان گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا، چاہے خاوند اور بيوى مسلمان ہوں يا پھر صرف خاوند مسلمان ہو امام احمد كا بيان يہى ہے، اور امام شافعى رحمہ كا بھى قول ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا " انتہى
ديكھيں: ( 7 / 7 ) مختصرا.
جمہور علماء كرام اسے نكاح كے صحيح ہونے كے ليے شرط قرار ديتے ہيں، ليكن مالكيہ كے ہاں عقد نكاح كے وقت واجب نہيں بلكہ رخصتى سے قبل تك گواہى كو مؤخر كرنا جائز ہے، اس ليے اگر آپ كے نكاح پر دخول سے قبل اب دو مسلمان شخص گواہ بن جائيں تو صحيح ہے.
ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 216 ).
بعض اہل علم كا كہنا ہے كہ گواہ شرط نہيں بلكہ اعلان نكاح ہى كافى ہے، اس ليے اگر نكاح مشہور ہو گيا ہے اور اس كا اعلان كر ديا گيا جائے تو صحيح ہے، امام مالك اور امام زہرى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے ہى راجح قرار ديا ہے ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 94 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں شك و شبہ نہيں كہ نكاح كا اعلان كرنے سے نكاح صحيح ہو جاتا ہے، چاہے دو گواہ گواہى نہ بھى ديں، ليكن پوشيدہ نكاح اور گواہى ميں كچھ نظر ہے.
جب گواہى اور اعلان دونوں جمع ہوں تو اس نكاح كے صحيح ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.
اور جب گواہى اور اعلان نہ پايا جائے تو پھر عام علماء كے ہاں يہ نكاح باطل ہے، اگر اس ميں اختلاف فرض كيا جائے تو يہ بہت كم ہے " انتہى
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 177 ).
اس بنا پر اگر نكاح كا اعلان ہو چكا اور مشہور ہوگيا تو يہ صحيح ہے، ليكن بہتر يہى ہے كہ جمہور علماء كے قول كے مطابق ولى اور دو گواہوں كى موجودگى ميں نكاح دوبارہ كيا جائے.
واللہ اعلم .