"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
سوال: ستر کسے کہتے ہیں؟ اور اس کی حد بندی کیا ہے؟ اگر کسی شخص کو شک گزرے کہ اس کے ستر کا کچھ حصہ نماز میں عیاں ہو جاتا ہے تو کیا اس کی نماز ٹوٹ جائے گی؟
الحمد للہ.
اول:
لغوی طور پر عربی زبان میں ستر پر "اَلْعَوْرَةُ" کا لفظ بولا جاتا ہے جو کسی بھی درّے میں پائے جانے والے خلل کو کہتے ہیں۔
لغت کی کتاب: " الْمِصْبَاحِ المنير " میں ہے کہ:
جس چیز کو بھی انسان حیا اور شرم کی وجہ سے ڈھانپے اسے [اردو میں ستر اور] عربی میں " عَوْرَةُ " کہا جائے گا۔
فقہائے کرام کے ہاں ستر یہ ہے کہ:
جسم کے جس حصے کو بھی مرد یا خاتون کیلیے عریاں کرنا حرام ہے اسے ستر کہتے ہیں۔
اور فقہائے کرام کے مطابق ستر پوشی اسے کہتے ہیں کہ:
انسان چاہے مرد، عورت یا مخنث کوئی بھی ہو، اس کا اپنے جسم کے اس حصے کو ڈھانپ کر رکھنا جسے عیاں کرنا عار اور شرمندگی کا باعث ہو ستر پوشی کہلاتا ہے۔
دیکھیں: الموسوعة الفقهية (24/173)
دوم:
نماز کے درست ہونے کیلیے ستر ڈھانپنا شرط ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُل مَسْجِدٍ )
ترجمہ: کسی بھی مسجد کے پاس [جانے کیلیے] لباس ِزینت زیب تن کر کے جاؤ۔ [الأعراف:31]
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ:
"زینت سے مراد نماز کیلیے لباس ہے"
تفسیر طبری: (12/391)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کسی بھی بالغہ عورت کی نماز دوپٹے کے بغیر اللہ تعالی قبول نہیں فرماتا)
ابو داود: (641) اور ترمذی: (377) نے اسے حسن قرار دیا ہے جبکہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اسی طرح المغنی: (1/336) میں ہے کہ:
"ستر کو ایسے انداز سے ڈھانپنا کہ یہ نمایاں نہ ہو اور نہ ہی جسم کے خد وخال اسے عیاں ہو نماز کے صحیح ہونے کیلیے شرط ہے، امام شافعی اور اصحاب رائے کا بھی یہی موقف ہے" انتہی
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ستر کو نماز میں ڈھانپنا شرط ہے" انتہی
فتح الباری: (1/466)
سوم:
نمازی کیلیے اپنے ستر کو دورانِ نماز ڈھانپ کر رکھنا تمام مسلمانوں کے ہاں واجب ہے، مرد کا ستر جمہور اہل علم کے ہاں ناف سے گھٹنے تک ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: المغنی (3/7) ، الاستذكار (2/197) ، فتاوى إسلامية" (1/427)
جبکہ عورت کے نماز کیلیے ستر بالوں سمیت عورت کا پورا جسم ستر ہے، ما سوائے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے ، چنانچہ اگر اس طرح نماز ادا کرے تو اس کی نماز متفقہ طور پر مکمل ہے۔
مزید کیلیے دیکھیں: "الإقناع في مسائل الإجماع "از: ابن قطان (1/121-123) اور اسی طرح "الشرح الممتع" (2/160) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔
چہارم:
نمازی نماز میں داخل ہو تے وقت مطمئن اور پر یقین ہو کہ اس کا ستر ڈھانپا ہوا ہے لیکن درمیان میں اسے یہ شک گزرے کہ ستر کا کچھ حصہ عیاں ہے تو شک چھوڑ دے اور اپنی نماز مکمل کرے؛ کیونکہ یقینی طور پر اس نے ستر ڈھانپا ہوا ہے لہذا یقین کو شک کی بنا پر ختم نہیں کیا جا سکتا اور ایسی صورت میں شک کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بخاری: (137) اور مسلم: (361) میں عباد بن تمیم اپنے چچا سے بیان کرتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسے شخص کے بارے میں شکایت کی گئی کہ اسے دورانِ نماز محسوس ہوتا ہے کہ ہوا خارج ہو گئی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ اس وقت تک نماز مت توڑے جب تک آواز یا بد بو نہ سونگھ لے)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول بیان کر رہی ہے اور یہ اصول فقہی قواعد میں سے عظیم قاعدہ ہے، یعنی کہ ہر چیز کا یقینی حکم باقی ہے جب تک اس کے متصادم یقینی دلائل ثابت نہ ہو جائیں، لہذا وقتی طور پر پیدا ہونے والا شک اس چیز کے اصلی حکم پر اثر انداز نہیں ہو گا" انتہی
البتہ نمازی کی ذمہ داری ہے کہ نماز میں داخل ہونے سے پہلے مکمل تیاری کر لے اور ایسا لباس زیب تن کرے جس میں یقینی طور پر ستر ڈھک جائے اور ایسے لباس سے بچے جس میں دوران نماز ستر کے عیاں ہونے کا خدشہ ہو ، مثال کے طور پر ٹی شرٹ وغیرہ جو کہ پچھلی جانب سے عام طور پر سرک جاتی ہیں اور رکوع یا سجدے میں جاتے ہوئے ستر عیاں ہو جاتا ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (3075) اور (107701 ) کا مطالعہ بھی کریں۔
واللہ اعلم.