اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

كيا جانور ذبح كرنے سے قبل اسے بےہوش كرنے كى حرمت قرآن مجيد ميں موجود ہے ؟

03-11-2008

سوال 12776

بہت سارے ممالك ميں جانور ذبح كرنے كا طريقہ يہ ہے كہ جانور كے سر ميں ضرب لگائى جاتى ہے يا پھر اسے بجلى كا كرنٹ لگائے جانے كے بعد اسے ذبح كرتے ہيں، تو كيا اس طريقہ سے ذبح كرنا حلال ہے، يہ علم ميں رہے كہ بعض لوگ كہتے ہيں جانوروں كو بےہوش كرنے كىحرمت كى قرآن مجيد ميں كوئى نص نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر تو جانور كے سر ميں ضرب لگا كر يا پھر اسے كرنٹ لگايا جائے تو ذبح كرنے سے قبل ہى وہ جانور مر جائے تو يہ موقوذۃ يعنى ضرب سے مرنے والے جانور ميں شمار ہوتا ہے، چاہے بعد ميں اس كى گردن كاٹ بھى دى جائے يا اسے نحر بھى كيا جائے ( نحر يہ ہے كہ اس كے حلق كے نيچے چھرى مارى جائے ) تو اسے كھايا نہيں جا سكتا، اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے درج ذيل فرمان ميں حرام كيا ہے:

تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).

علماء اسلام كا اجماع اور اتفاق ہے كہ اس طرح كا ذبح حرام ہے، اور اگر مذكورہ طريقہ سے بےہوش كرنے كے بعد اس ميں جان ہو اور اسے ذبح يا نحر كر ليا جائے تو اسے كھانا جائز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آيت ميں فرمايا ہے:

جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو

تو اس كے بعد فرمايا:

مگر جسے تم ذبح كر لو .

اللہ سبحانہ و تعالى نے ان حرام كردہ سے اسے استثنى كيا ہے جسے زندہ حالت ميں پا ليا جائے اور اسے زندہ حالت ميں ہى ذبح كر ليا گيا ہو، تو اسے ذبح كرنے كى تاثير كى بنا پر كھايا جائيگا، ليكن اس كے بخلاف جو بےہوش كرنے كى بنا پر ذبح يا نحر كرنے سے قبل ہى مر جائے، كيونكہ اس كے حلال ہونے ميں ذبح كى كوئى تاثير نہيں.

اس سے يہ علم ہوا كہ قرآن مجيد نے ان جانوروں كو حرام كيا ہے جو بےہوش كرنے كى بنا پر ذبح كرنے سے قبل ہى مر جائيں، كيونكہ بےہوش كردہ جانور ضرب سے مرنے والا جانور ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ المآئدۃ كى آيت ميں اس كو حرام قرار ديا ہے، ليكن اگر اسے زندہ پا ليا جائے اور زندہ ہونے كى صورت ميں ہى اسے ذبح يا نحر كر ليا جائے تو وہ حلال ہے.

دوم:

حيوان كو ضرب يا كرنٹ وغيرہ لگا كر بےہوش كرنا حرام ہے، كيونكہ اس ميں جانور كو اذيت اور عذاب ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جانور كو اذيت اورعذاب دينے سے منع فرمايا ہے، بلكہ جانور كے ساتھ رحم اور نرمى و شفقت كرنے كا حكم ديا ہے.

بلكہ خاص كر ذبح كرنے كے متعلق تو خاص كر اہتمام كرنے كا حكم ديا، امام مسلم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس ميں روح ہو اسے نشانہ بازى كا ہدف مت بناؤ "

اور امام مسلم رحمہ نے ہى جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى بھى جانور كو باندھ اور نشانہ بنا كر قتل كرنے سے منع فرمايا "

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ہى شداد بن اوس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر چيز پراحسان كرنا فرض كيا ہے، تو جب تم قتل كرو تو اس ميں بہترى اختيار كرو، اور جب ذبح كرو تو بہتر طريقہ سے كرو، اور تمہيں اپنى چھرى تيز كر لينى چاہيے اور اپنے ذبح كردہ جانور كو راحت پہنچائے "

اور اگر بے ہوش كيے بغير جانور ذبح كرنا ميسر نہ ہو تو پھر اس ميں شرط يہ ہے كہ بےہوش ہونے كے بعد مرے نہيں بلكہ اس ميں زندگى ہونى چاہيے اور زندہ ہونے كى صورت ميں اسے ذبح يا نحر كيا جائے تو ضرورت كى بنا پر بےہوش كرنا جائز ہے اھـ.

اہل کتاب کا ذبح کردہ جانور
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔