"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
کیا ایک طالبہ کا والدین سے بھی زیادہ اپنی استانی سے محبت اور احترام کرنا والدین کی نافرمانی ہے؟ آپ اس بارے میں کیا نصیحت کریں گے؟
الحمد للہ.
طالبہ کا اپنی استانی کے متعلق محبت اور قدردانی کا احساس ایک اچھی بات ہے اور استانی کا احترام کرنا شریعت الہی میں ایک اعلیٰ اخلاق کا مقام رکھتا ہے، لیکن ہمیں طالبہ کی اپنی استانی سے محبت اور اس کی والدین کے ساتھ محبت میں موازنہ کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین کی محبت فطری ہوتی ہے جبکہ استانی اور ٹیچر سے محبت کا سبب بعد میں رونما ہوتا ہے جس کی وجہ سے شاگرد ہ اپنی استانی سے محبت کرنے لگتی ہے۔
لیکن یہاں دو چیزوں پر گہری نظر ہونی چاہیے:
پہلی چیز: خیال رہے کہ یہ شاگردہ اور استانی کے درمیان “محبت” کہیں طلبہ کو “شیدائی” نہ بنا دے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ صحیح راستے سے ہٹ چکے ہیں، لہذا شاگرد کا اپنے استاد سے یا استاد کا اپنے شاگرد سے متاثر ہونا۔ اسی طرح شاگردہ کا اپنی استانی سے یا استانی کا اپنی شاگردہ سے متاثر ہو نا بسا اوقات نہ ختم ہونے والے مفاسد اور خرابیوں کا باعث بنتا ہے، ہم نے اس بیماری کے حوالے سے اس کی خرابیاں اور برے اثرات ، اور اس کے علاج کے لیے سوال نمبر: (104078) میں مفصل گفتگو کی ہے، لہذا اس بیماری سے بچنے کے لیے اس سوال کا مطالعہ مفید ہو گا۔
دوسری چیز: ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ شاگردہ اور استانی کے درمیان “محبت” شاگردہ کے ذہن میں استانی کے متعلق “پارسائی” اور “مقدس شخصیت” کا تصور پیدا نہ کر دے، عام طور پر نسوانی صوفی جماعتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے، خصوصاً دمشق کی “قبیسی جماعتِ نسواں” ایسے ہی اردن کی “طباعی جماعتِ نسواں”، لبنان میں “سحری جماعتِ نسواں” اور کویت میں “بیادر السلام” وغیرہ ، یہ سب کی سب ایک ہی نظریہ رکھنے والی تنظیم کے مختلف نام ہیں، یہ نقشبندی سلسلے سے جڑی خواتین کی صوفی تنظیمیں ہیں، ان سب کا متفقہ طور پر نظریہ ہے کہ اپنی صوفی بزرگ خاتون کی تعظیم اور تقدیس میں کسی قسم کی کمی نہیں آنی چاہیے، یہ تمام تنظیمیں بچیوں اور خواتین کو اس نہج پر تربیت دیتی ہیں کہ اپنی صوفی بزرگ خاتون کو والدین، اور خاوند سے بھی زیادہ ترجیح دینی ہے، ان کی اس غلط تربیت کی وجہ سے ان تنظیموں کے ساتھ جڑی خواتین کے گھر اجڑ چکے ہیں اور اب یہ خواتین طلاق یافتہ ہیں۔
ان جماعتوں کے متعلق دائمی فتوی کمیٹی کی جانب سے بڑا ہی تفصیلی فتوی بھی جاری کیا جا چکا ہے، ہم اس میں سے کچھ حصے آپ کے سامنے رکھتے ہیں:
الشیخ عبد العزیز بن باز، الشیخ عبد الرزاق عفیفی، الشیخ عبد العزیز آل الشیخ، الشیخ عبد اللہ غدیان، الشیخ صالح الفوزان، الشیخ بکر ابو زید۔
” فتاوى اللجنة الدائمة ” دوسرا ایڈیشن ( 2 / 74 – 79 )
ہم سائلہ بہن کو نصیحت کریں گے کہ اپنی استانی سے محبت کرتے ہوئے بھی راہِ اعتدال اختیار کرے، نیز یہ محبت بھی شریعت پر مبنی ہونی چاہیے، لہذا استانی سے محبت استانی کے مکمل دیندار ہونے کی وجہ سے ہونی چاہیے اس میں کسی قسم کا غلو اور افراط نہیں ہونا چاہیے، چنانچہ اگر بہن کو محسوس ہو کہ وہ صحیح شرعی راستے سے ہٹ رہی ہے اور ہماری ذکر کردہ منفی چیزوں کی طرف جا رہی ہے تو پھر فوری طور پر اپنا علاج خود کرے، اور اپنی محبت کو سیدھا کرے، اور اگر سیدھا نہ کر سکے تو استانی سے تعلق ختم کر دے، تعلق ختم کرنے کی وجہ سے وہ گناہگار نہیں ہو گی، بلکہ اس تعلق کو قائم رکھنے کی وجہ سے اسے گناہ ہو گا۔
سائلہ بہن! آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے والدین کا آپ پر حق ہے، اور کیا حق ہے؟ اور تمہارے شوہر کا تم پر حق ہے، اور کیا حق ہے؟ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ تمہاری اولاد کا تم پر حق ہے، اور اسی طرح تمہاری استانی کا تم پر حق ہے، لہٰذا ہر ایک کو اس کا حق دو۔
واللہ اعلم