اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

شکمِ مادر میں جنین کے متعلق تفصیلات بیان کرنے والی من گھڑت حدیث قدسی

08-10-2023

سوال 128797

مجھے بذریعہ برقی پیغام ایک حدیث پہنچی ہے، میں اس کے صحیح ہونے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں، اس حدیث میں ہے کہ: اللہ تعالی فرماتا ہے: (اے ابن آدم! میں نے تجھے تیری ماں کے پیٹ میں پیدا کیا اور تیرے چہرے پر پردہ ڈالا تاکہ تو رحم سے متنفر نہ ہو جائے اور میں نے تیرا چہرہ تیری ماں کی پیٹھ کی طرف کر دیا تاکہ کھانے کی بو تجھے تنگ نہ کرے۔ تمہاری دائیں طرف تکیہ لگایا اور بائیں طرف بھی تکیہ لگایا ، تمہاری دائیں طرف کا تکیہ جگر اور بائیں طرف کا تکیہ تلی کو بنایا، اور میں نے تمہیں تمہاری ماں کے پیٹ میں کھڑا ہونا اور بیٹھنا سکھایا ، یہ کام میرے سوا کوئی اور کر سکتا ہے؟۔ پس جب تمہارا وقت پورا ہو گیا اور میں نے رحموں کے ذمہ دار فرشتے کو وحی کی کہ تجھے نکالے، تو اس نے تجھے اپنے بازو کے ایک پر پہ اٹھا کر نکالا، تیرے پاس کاٹنے کو کوئی دانت نہیں تھے۔ نہ پکڑنے کے قابل ہاتھ تھے، نہ چلنے کے لائق پاؤں تھے، لہذا میں نے تیرے لیے تیری والدہ کے سینے میں دو رگیں چلا دیں جن کے اندر سردیوں میں خالص اور گرم دودھ جبکہ گرمیوں میں ٹھنڈا دودھ جاری کیا، اور میں نے تیری محبت تیرے والدین کے دلوں میں ڈالی تو وہ اس وقت تک سیر نہ ہوتے تھے جب تک تو سیر نہ ہو جائے، وہ اس وقت تک نہیں سوتے جب تک تو نہ سو جائے ، پس جب تیری کمر مضبوط ہو گئی اور تیرا زور بازو انتہا کو پہنچ گیا تو توں نے تنہائی میں گناہوں کے ذریعے میرا مقابلہ کرنا شروع کر دیا اور تجھے مجھ سے شرم نہیں آئی۔ لیکن اس کے باوجود اگر تو نے مجھے پکارا تو میں نے تیری پکار کو سنا، اور اگر توں نے مجھ سے مانگا تو میں نے تجھے عطا کیا ، اور اگر توں نے توبہ کی تو میں تیری توبہ بھی قبول کروں گا۔)

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے علم کے مطابق ایسی کوئی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں ہے، یہ بے بنیاد بات ویسے ہی لوگوں میں مشہور ہو گئی ہے۔

تاہم سوال میں مذکور بات سے ملتی جلتی گفتگو کتاب و سنت میں تو کہیں نہیں البتہ تورات کے حوالے سے نقل شدہ ملتی ہے کہ ابو نعیم "حلیۃ الاولیاء": (10/399) میں اپنی سند سے محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ:
"میں نے تورات -یا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحائف-میں پڑھا اور اس میں تھا کہ: "اللہ تعالی فرماتا ہے: اے ابن آدم! توں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا، میں نے تجھے پیدا کیا حالانکہ تیرا وجود بھی نہیں تھا ، اور میں نے تجھے ایک کامل انسان بنایا، میں نے تجھے مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر میں نے تجھے محفوظ جگہ پر نطفے کی حالت میں رکھا، پھر میں نے نطفے کو علقہ بنایا ، اور پھر علقہ کو مضغہ بنایا، اور پھر مضغہ میں ہڈیاں پیدا کیں، اس کے بعد ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھایا، اور تمہیں ایک الگ ہی تخلیق بنایا۔۔۔" پھر انہوں نے سوال میں مذکور چیزوں کو بھی بیان کیا ہے، اور اس میں کچھ اور چیزیں اضافی بھی ہیں۔

ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی بھی بات کی نسبت کرنے سے پہلے تصدیق کر لے کہ کیا واقعی وہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے؟ تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کسی چیز کی جھوٹی نسبت نہ ہو سکے۔

پھر اگر کوئی شخص کسی کی بات کو آگے نقل کرنا چاہتا بھی ہے تو اس کے اصل قائل کی نسبت سے بیان کرے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی بھی بات اچھی لگے اور اس کا معنی و مفہوم ٹھیک ہو تو بغیر کسی دلیل کے اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کر دے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف کر دے۔

واللہ اعلم

مصطلح الحدیث
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔