"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
خاوند اور بيوى كے ليے ايك ہى ملك كى شہريت والے ہونا شرط نہيں، اور نہ ہى يہ شادى كا معيار ہے، بلكہ مطلوب تو يہ ہے كہ عورت كى جانب سے دين ايك ہو، اگر حالت وہى ہے جو آپ نے بيان كي ہے تو شرعى طور پر آپ كے ليے اس مصرى شخص سے شادى كرنے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ كا ولى اس شادى پر راضى ہو.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس سے ( اپنى بچى كا ) نكاح كر دو اگر ايسا نہيں كروگے تو زمين ميں وسيع و عريض فتنہ بپا ہو گا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) ترمذى نے اسے حسن غريب كہا ہے، سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1967 ) اور سنن البيہقى الكبرى ( 7 / 82 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے الارواء الغليل حديث نمبر ( 1868 ) اور صحيح سنن ترمذى حديث نمبر ( 865 ) اور ( 866 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.
اور ہم يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس طرح كى شاديوں ميں ذرا غور كريں اور دونوں ملكوں كى عادات كو بھى ديكھيں كہ كہيں يہ بعد ميں آپ كے ازدواجى تعلقات پر اثرانداز نہ ہو، اور آپ اس معاملہ كو سمجھنے كى كوشش كريں جو بعد ميں ان شاء اللہ آپ دونوں كو جمع ركھ سكے.
واللہ اعلم .