ميں اپنے ملك كى بجائے ايك عرب ملك ميں رہتا ہوں ميرے اور بيوى كے مابين دو طلاق ہو چكى تھيں، اور اس كے بعد يہ ہوا كہ ميرى بيوى نے ميرے اور اس كے درميان اختلافات كى بنا پر عدالت ميں طلاق كا مقدمہ كر ديا، اور پہلى پيشى سے پہلے ہى ہمارے مابين بہت شديد جھگڑا ہوا اور اس نے پوليس منگوانے كى دھمكى دى.
تو ميں نے اس موقع پر اسے طلاق كے الفاظ بول ديے، پھر اس كے بعد ہمارے مابين معاملات ٹھنڈے ہو گئے اور ہم نے ايك عالم دين سے اس طلاق كے متعلق مشورہ كيا كہ آيا يہ تيسرى طلاق ہوئى ہے يا نہيں، تو اس نے ہميں فتوى ديا كہ يہ طلاق نہيں ہوئى، كہ يہ تو پوليس كے خوف اور اس وقت پيدا ہونے والى مشكل كا نتيجہ تھا.
جو كچھ اوپر بيان ہوا ہے وہ ميرى بيوى كى جانب سے عدالت ميں طلاق ضرر كے مقدمہ كى پہلى پيشى سے قبل ہوا اور جو كچھ ہوا وہ اس ليے كہ ميں اس موقف سے تنگ آ گيا تھا اور قاضى كے سامنے طلاق كا لفظ بول ديا تو قاضى نے مجھے كہا تم بيٹھ كر ٹھنڈے ہو جاؤ، اور مجھے يہ بتاؤ كہ تم نے شادى سے لے كر اب تك جو بھى طلاق كے الفاظ بولے تھے وہ كس طرح تھے، تو ميں نے قاضى كو پہلى دونوں طلاقوں كے متعلق بتايا اور تيسرى طلاق كے متعلق بھى جس كے بارہ ميں عالم دين نے طلاق نہ ہونے كى فتوى ديا تھا اس كے بارہ ميں بھى بتايا.
اور اس طرح يہ پيشى ختم ہو گئى، پھر ايك ماہ كے بعد فيصلہ صادر ہوا اور فيصلہ درج ذيل تھا:
پہلى دو طلاقيں ثابت ہو چكى ہيں، اور تيسرى طلاق بھى ثابت ہو گئى جس كے متعلق عالم دين نے واقع نہ ہونے كا فتوى ديا تھا "
نوٹ: قاضى نے اس طلاق كو شمار نہيں كيا جو ميں نے اس كے سامنے بولى تھى، اس نے يہ خيال كيا كہ يہ ميرے شديد غضب كے نتيجہ ميں تھى اس ليے اسے شمار نہيں كيا.
اب مشكل يہ ہے كہ ميں شديد پريشان ہوں كيونكہ اندورنى طور پر مجھے مكمل يقين ہے كہ ميرى بيوى اب ميں ميرى عصمت ميں ہے اور اسے طلاق نہيں ہوئى، كيونكہ تيسرى طلاق واقع نہيں ہوئى اس كى دليل عالم دين كا وہ فتوى ہے جس نے ہمارے موضوع كو تفصيل كے ساتھ سنا تھا.
اس كے برعكس قاضى كے سامنے ہم اس موضوع كو جو كچھ ہوا پورى تفصيل كے ساتھ بيان نہيں كر سكے، جس طرح اس عالم دين كے سامنے بيان ہوا تھا، اور اسى طرح اس موقف كى صعوبت كى بنا پر نفسياتى طور پر بھى.
اب مشكل يہ ہے كہ ميرى بيوى جانتى ہے كہ وہ اب بھى ميرے نكاح ميں ہے، ليكن اس فيصلہ كے پيش نظر اسے مستقبل ميں خوف ہے كہ كہيں كوئى مشكل پيش نہ آ جائے، اس ليے وہ مجھ سے مطالبہ كرتى ہے كہ كسى شخص كے ساتھ صورى يعنى كاغذوں پر نكاح كر ليا جائے اور پھر اس سے دوسرے دن طلاق لے لى جائے تا كہ ہم اكٹھے رہ سكيں، پھر ميرے اور اس كے درميان دوبارہ شادى ہو تا كہ وہ مطمئن ہو كہ سركارى طور پر ان كا نكاح ہوا ہے اور يہ نكاح طلاق كے فيصلہ كے بعد كى تاريخ ميں ہوا ہے.د
وہ كہتى ہے يہ صرف كاغذ پر ہو گى اور ہم اسى حالت ميں رہيں گے كہ ہمارے درميان دو طلاقيں ہو چكى ہيں.
اور وہ يہ بھى كہتى ہے كہ اس نے ايك وكيل سے اور ايك عالم دين سے اس كے حل كے متعلق دريافت كيا ہے تو ان كا كہنا تھا كہ: اس قاعدہ اور اصول پر عمل كرتے ہوئے كہ " ضروريات محظورات كو مباح كر ديتى ہيں " ايسا كرنا ممكن ہے.
حقيقت ميں اس پر ميں مطمئن نہيں ہوں، اور اللہ سے ڈرتا ہوں كيونكہ ميں جانتا ہوں كہ شادى ميں مذاق نہيں ہے چاہے وہ كاغذ پر ہى ہو، تو پھر يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ ميں اس پر مطمئن ہو جاؤں كہ ميرى بيوى جو ميرے نكاح ميں ہے وہ كسى اور شخص سے كاغذى طور پر شادى كرے، تا كہ ہم اس مشكل سے نكل سكيں.
آخرى نوٹ: جب سے فيصلہ ہوا ہے اس وقت سے ميرى بيوى ميرے ساتھ نہيں رہتى، ليكن كئى ايك بار ہم نے ازدواجى تعلقات قائم كيے ہيں، كيونكہ ہميں پورا يقين ہے كہ ہم اس فتوى كى دليل كى بنا پر اللہ كے ہاں ابھى تك خاوند اور بيوى ہيں.
الحمد للہ.
اول:
جب معاملہ عدالت ميں اٹھايا جائے اور
شرعى قاضى كا فيصلہ صادر ہو جائے كہ طلاق ہو چكى ہے يا نہيں ہوئى تو پھر كسى بھى
فتوى كا كوئى اعتبار نہيں رہتا جو اس فيصلہ كے مخالف ہو چاہے وہ كوئى بھى فتوى ہو،
كيونكہ اگر اختلاف ہو تو قاضى كا فيصلہ اس كو ختم كر ديتا ہے.
اس بنا پر آپ كى بيوى آپ سے عليحدہ
ہو چكى ہے اور اسے طلاق بائن ہو چكى ہے، اور وہ اس وقت تك آپ كے ليے حلال نہيں ہو
سكتى جب تك وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے اور يہ نكاح حلالہ نہ ہو، اور پھر وہ
خود ہى اسے طلاق دے يا پھر فوت ہو جائے.
دوم:
آپ كے ليے اپنى بيوى كو حلال كرنے كے
ليے صورى عقد نكاح يعنى كاغذوں پر نكاح كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس سے آپ كى بيوى
آپ كے ليے حلال ہوگى، اور حلالہ كرنے والا اور كرانے والا دونوں ہى ملعون ہيں.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم
كا فرمان ہے:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ
كرانے والے پر لعنت فرمائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور بالجملہ يہ كہ عام اہل علم كے
قول كے مطابق نكاح حلالہ باطل ہے؛ جن ميں حسن، النخعى اور قتادہ اور مالك اور ليث
اور ثورى اور ابن مبارك اور امام شافعى شامل ہيں.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 137
).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
" نكاح حلالہ فاسد ہے، اس سے وہى
احكام ثابت ہونگے جو باقى فاسد عقود سے ثابت ہوتے ہيں، اور اس سے عفت حاصل نہيں
ہوگى اور نہ ہى اس سے پہلے خاوند كے ليے مباح ہو گى جس طرح باقى سارے فاسد عقود ميں
ثابت نہيں ہوتے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 140
).
مزيد آپ سوال نمبر (
14038 ) اور (
109245 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور
كريں.
سوم:
اللہ كى قسم ہم تو آپ دونوں كى حالت
پر تعجب كر رہے ہيں، بيوى اپنا معاملہ عدالت ميں لےجانے پر مصر ہے اور طلاق كا
مطالبہ كرتى ہے، اور جب عدالت سے طلاق كا فيصلہ ہو جاتا ہے تو الٹے پاؤں پھر جاتى
ہے، اور آپ كى طرف واپس آنے اور بيوى بننے كى رغبت ركھتى ہے.
اور اب ديكھيں تم دونوں حرام زناكارى
كا ارتكاب كيے جا رہے ہيں، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ ايك عالم نے طلاق واقع نہ ہونے
كا فتوى ديا ہے، اور يہ تو سب سے برى چيز ہے جس ميں انسان مبتلا ہوتا ہے، وہ نعمت
كى ناشكرى كرے، اور حلال ميں ناراض ہو، اور پھر اس پر راضى ہو اور حرام ميں اس كو
حاصل كرنے كى كوشش كرے، يقينا يہ تو شيطان كے مكر و فريب اور اس كى تزيين سے ہے كہ
وہ اسے ابن آدم كے ليے مزين كر ديتا ہے.
اس ليے ہمارى نصيحت يہ ہے كہ آپ اللہ
كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اور اس كے غضب اور ناراضگى و انتقام سے بچ جائيں اور يہ
جان ليں كہ عدالت كا فيصلہ اسى صورت ميں ٹوٹ سكتا اور ختم ہو سكتا ہے جب قاضى كے
ليے غطلى واضح ہو جائے اور وہ اپنے فيصلہ سے رجوع كر لے.
اس ليے آپ كے ليے اس كے علاوہ كوئى
اور راہ نہيں كہ آپ عدالت سے دوبارہ رجوع كريں، اور اگر وہ اسى فيصلہ پر اصرار كرے
تو آپ كے ليے وہ اس وقت تك حلال نہيں ہو سكتى جب تك كسى دوسرے سے نكاح رغبت نہ كر
لے نكاح حلالہ نہيں پھر اگر اللہ تعالى مقدر كر دے كہ وہ فوت ہو جائے يا اسے طلاق
دے دے.
واللہ اعلم .