اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

قرض كى ادائيگى ميں تاخير ہونے پر جرمانہ عائد كرنا جائز نہيں

03-07-2005

سوال 13709

اگر گاہك پر جرمانہ عائد كر ديا جائے تو كيا يہ سود شمار ہو گا؟ اس ليے كہ بنك نے چيك كيش كرنے سے انكار كرديا ، مثلا اگر كوئى گاہك كسى معين ادارے كے ليے معين رقم كا چيك كاٹے، اور جب صاحب عمل چيك كيش كروانے جائے تو وہاں اس كے كھاتے ميں بيلنس ہى نہ ہو، اور اس كے بعد وہ گاہك سے جرمانہ وصول كرے كيونكہ اس كا چيك كيش نہيں ہوا تھا، تو كيا يہ اضافى رقم سود شمار ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں آپ كے ليے صرف اتنا مال لينا ہى حلال ہے جو گاہك كے ذمہ تھا، اور تاخير كے سبب يا اس وجہ سے كہ رقم كى وصولى ميں آپ كو مشقت اٹھانا پڑى ہے اس پر اضافى رقم ڈالنا جائز نہيں، بلكہ آپ صرف اتنى رقم ہى وصول كريں جو اس نے چيك ميں لكھى تھى، ليكن اگر وہ آپ كو بنك جانے كے بدلے ميں بطور اجرت كچھ رقم دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ليكن تاخير كى حالت ميں زائد رقم كى شرط عائد كرنى جائز نہيں ہے .

سود خوری
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔