"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ميں ايك عمارت ميں ملازمت كرتا ہوں جہاں ميرے علاوہ كئى صد ملازمين ملازمت كرتے ہيں، ميں شام كو گھر جا كر تاخير سے نمازيں ادا كرنے سے اجتناب كرنے كے ليے يہ كام كرتا ہوں كہ: آرام كے اوقات ميں اپنى گاڑى ميں جا كر ڈرائيور سيٹ پر بيٹھ كر نماز ادا كر ليتا ہوں، اور ركوع كے ليے تھوڑا سا جھك جاتا ہوں، اور سجدہ كرتے وقت سر كو نيچا كرنے ميں مبالغہ سے كام ليتا ہوں ؟
الحمد للہ.
فرضى نماز ميں قيام ( كھڑے ہو كر نماز ادا كرنا ) نماز كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، اور بغير عذر اس كا ترك كرنا جائز نہيں، صرف بيمارى يا شديد خوف كى وجہ سے عاجز ہونے كى بنا پر ترك ہو سكتا ہے.
چنانچہ اگر كوئى شخص عمدا اور جان بوجھ كر قيام ترك كرتا ہے تو اس كى نماز باطل ہو جائيگى، اس سے يہ واضح ہوا كہ آپ كے ليے بيٹھ كر نماز ادا كرنا جائز نہيں، كيونكہ آپ كے پاس كوئى شرعى عذر نہيں ہے، اور بيٹھ كر آپ كا نماز ادا كرنا صحيح نہيں، اس كى دليل بخارى وغيرہ كى درج ذيل حديث ہے:
عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے بواسير كا مرض تھا چنانچہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نماز كھڑے ہو ادا كرو، اور اگر استطاعت نہيں تو بيٹھ، اور اگر استطاعت نہيں تو پہلو كے بل "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1117 ).
نماز ميں قيام كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13340 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
جب آپ كے ليے يہ واضح ہو گيا؛ تو آپ يہ علم ميں ركھيں كہ آپ كے ليے نماز ميں تاخير كرنى بھى جائز نہيں، بلكہ ہر نماز اس كے شرعى طور پر محدود وقت ميں ادا كرنا واجب ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا مؤمنوں كے ليے وقت مقررہ پر نماز ادا كرنى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).
اس ليے آپ نماز وقت كے اندر كسى مناسب اور پاك صاف جگہ پر كھڑے ہو كر ادا كرنے كى كوشش كريں، اور يہ شريعت اسلاميہ كى آسانى ميں شامل ہے كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے امت محمديہ كو يہ خصوصيت بخشى ہے كہ وہ كسى بھى پاك صاف جگہ پر نماز ادا كر سكتى ہے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مجھے پانچ ايسى چيزيں دى گئى ہيں جو مجھ سے پہلے انبياء كو نہيں دى گئيں، ايك ماہ كى مسافت پر رعب كے ساتھ ميرى مدد كى گئى ہے، اور ميرے ليے سارى مسجد پاكيزہ اور طاہر بنائى گئى ہے، اور ميرى امت كے كسى شخص كو بھى جہاں نماز كا وقت ہو وہيں نمازادا كرلے، اور ميرے ليے غنيمت حلال كي گئى ہے مجھ سے قبل كسى كے ليے بھى حلال نہ تھى، اور مجھے شفاعت دى گئى ہے، اور پہلے نبى خاص كر اپنى قوم كے ليے مبعوث كيا جاتا تھا، ليكن ميں سب لوگوں كے ليے مبعوث كيا گيا ہوں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 335 ).
اس ليے اگر آپ كے قريب مسجد جہاں آپ نماز باجماعت ادا كر سكيں تو آپ كے كسى بھى پاك اور طاہر جگہ پر نماز ادا كرنى جائز ہے، صرف ان قليل سى جگہوں پر نماز ادا كرنى جائز نہيں جہاں شريعت نے نماز ادا كرنى حرام كى ہے، مثلا قبرستان، اور غصب كردہ زمين اور بيت الخلاء وغيرہ .
واللہ اعلم .