"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
نماز عید کی تکبیرات کے متعلق بہت سی مرفوع روایات یہ کہتی ہیں کہ: پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ سات تکبیریں ہیں اور دوسری رکعت میں قیام کی تکبیر کے علاوہ پانچ تکبیریں ہیں۔
جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عید الفطر کی نماز میں تکبیرات: پہلی رکعت میں سات ہیں اور آخری رکعت میں پانچ ہیں، اور دونوں رکعتوں میں قراءت تکبیرات کے بعد ہو گی) اس حدیث کو ابو داود (1151) نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی نے امام بخاری سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، دیکھیں: "ترتيب العلل الكبير" (154) امام نووی نے اس کو "الخلاصة" (2/831) میں حسن قرار دیا، جبکہ البانی نے اسے "صحيح أبي داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح کثیر بن عبد اللہ اپنے والد سے اور وہ دادا سے بیان کرتے ہیں کہ: ( نبی صلی اللہ علیہ و سلم عیدین کی نماز کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں قراءت سے پہلے کہیں اور آخری رکعت میں پانچ تکبیریں قراءت سے پہلے کہیں) اس حدیث کو امام ترمذی (536)نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ: "اس مسئلے میں عائشہ، ابن عمر، عبد اللہ بن عمرو سے بھی روایات مروی ہیں، نیز کثیر کے دادا کی حدیث حسن ہے، نیز یہ حدیث اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول مضبوط ترین حدیث ہے، ان کا نام عمرو بن عوف مزنی ہے" ختم شد
نیز ترمذی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے کہ:
"اس مسئلے میں اس سے صحیح تر کوئی روایت نہیں ہے، اور میرا موقف اسی کے مطابق ہے" ختم شد
"ترتيب العلل الكبير" (153)
نیز اس حدیث کے مطابق جمہور اہل علم نے موقف اپنایا ہے اور متعدد صحابہ کرام و تابعین سے اس پر عمل بھی منقول ہے۔
چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمارا موقف یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں، یہی موقف خطابی نے معالم السنن میں اکثر علمائے کرام سے نقل کیا ہے، نیز صاحب کتاب الحاوی نے بھی اکثر صحابہ اور تابعین سے روایت کیا جیسے کہ ابن عمر، ابن عباس، ابو ہریرہ، ابو سعید خدری، یحیی الانصاری، زہری، مالک، اوزاعی، احمد، اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ اسی طرح محاملی نے یہ موقف ابو بکر صدیق، عمر، علی، زید بن ثابت، اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایت کیا ہے، جبکہ عبدری نے اس موقف کو لیث بن سعد، ابو یوسف، اور داود سے بھی نقل کیا ہے۔" ختم شد
"المجموع" (5/24-25)
دوم:
مذکورہ روایات سے متصادم مرفوع روایات میں سائل کی ذکر کردہ روایت بھی ہے، اور اس حدیث کو بہت سے اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے، اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1- اس روایت میں عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان راوی ہے، اس کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ: "أحاديثه مناكير "یعنی اس کی احادیث منکر ہیں، ایک بار اس کے بارے میں یہ بھی کہا کہ: "لم يكن بالقوي في الحديث " وہ حدیث بیان کرنے میں قوی نہیں تھا۔ نیز ابن معین نے ایک روایت میں کہا ہے کہ: یہ ضعیف راوی ہے۔ اسی طرح امام نسائی کہتے ہیں کہ : یہ راوی ضعیف ہے۔ جبکہ ابو حاتم نے اسے ثقہ قرار دیا اور ابن معین نے دوسری روایت کے مطابق کہا کہ:" ليس به بأس " یعنی اس میں حرج والی صفات نہیں تھیں۔
دیکھیں: "تهذيب التهذيب" (6/151)
2- اس میں ابو عائشہ -ابو ہریرہ کا ساتھی- ہے جو کہ نامعلوم ہے، ابن حزم ، ابن قطان، اور ذہبی کے مطابق اس کے حالات کا علم نہیں ہے، جیسے کہ " بيان الوهم " (5/44) اور " ميزان الاعتدال " (4/543) میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
3- یہ روایت زیادہ مشہور اور زیادہ ثقہ راویوں کی مخالفت پر مبنی ہے کہ دیگر روایات میں ابو موسی اور حذیفہ رضی اللہ عنہما نے عید کی نماز کی چار رکعات ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب منسوب نہیں کیں۔
جیسے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کے راوی کی دو جگہوں پر مخالفت کی گئی ہے:
پہلی جگہ: کہ اس حدیث کو مرفوع بنا دیا۔
دوسری جگہ: ابو موسی کے جواب میں مخالفت ہے۔
حالانکہ اس مشہور قصے میں انہوں نے اپنا معاملہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کیا ہے کہ ابن مسعود نے یہ فتوی دیا تھا کہ عید کی نماز میں چار رکعت ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب انہوں نے منسوب نہیں کیا تھا۔
اسی طرح ابو اسحاق سبیعی عبد اللہ بن موسی یا ابن ابی موسی سے بیان کرتے ہیں کہ سعید بن العاص نے ابن مسعود ، حذیفہ، اور ابو موسی کی جانب پیغام بھیجا اور ان سے عید کی تکبیرات کے متعلق دریافت کیا، سب نے ابن مسعود کی طرف بھیج دیا، تو انہوں نے کہا کہ پہلی رکعت میں چار تکبیریں کہی جائیں اور پھر قراءت کی جائے، قراءت سے فراغت کے بعد تکبیر کہہ کر رکوع کریں، اور پھر دوسری رکعت کیلیے کھڑے ہو جائیں ، قراءت کریں اور قراءت سے فراغت کے بعد چار تکبیریں کہیں۔
اور عبد الرحمن : یہ ابن ثابت بن ثوبان ہے، اسے یحیی بن معین نے ضعیف قرار دیا ہے، نیز کہا کہ وہ نیک آدمی تھا۔
نیز نعمان بن منذر نے اسے مکحول سے اور انہوں نے ابو موسی اور حذیفہ کے ایلچی سے اور ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اسے روایت کیا ہے، اس میں ایلچی کا نام نہیں ہے، نیز اس میں اضافہ ہے کہ: تکبیر تحریمہ اور رکوع کی تکبیر کے علاوہ [چار چار تکبیریں کہنی ہیں]" ختم شد
"السنن الكبرى" (3/289)
امام خطابی کہتے ہیں کہ:
"ابو داود نے اس مسئلے میں ایک ضعیف حدیث روایت کی ہے۔۔۔ پھر یہی حدیث بیان کی" ختم شد
"معالم السنن" (1/251) .
اسی طرح ابن حزم رحمہ الله کہتے ہیں کہ:
"یہ حدیث صحیح نہیں ہے" ختم شد
"المحلى" (5/84)
اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ حدیث ضعیف ہے" ختم شد
"المغني" (3/270)
امام نووی رحمہ الله کہتے ہیں کہ:
"یہ ضعیف حدیث ہے" ختم شد
"المجموع" (5/25)
نیز ابن عبد الھادی نے بھی اس روایت کو "تنقيح التحقيق" (2/93) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
ایک اور حدیث:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی صحابی سے منقول ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں عید کے دن نماز پڑھائی اور چار ، چار تکبیریں کہیں، پھر نماز مکمل کرنے کے بعد ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: بھول مت جانا، جنازے کی تکبیرات کے مطابق، آپ نے انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے اپنا انگوٹھا بند رکھا) اس روایت کو امام طحاوی نے "شرح معاني الآثار" (4/345) میں روایت کیا ہے، اور اس کی سند یہ ہے: علی بن عبد الرحمن اور یحیی بن عثمان دونوں نے ہمیں حدیث بیان کی عبد اللہ بن یوسف سے وہ یحیی بن حمزہ سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے وضین بن عطاء نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ابو عبد الرحمن القاسم نے انہیں حدیث بتلائی کہ کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث سنائی کہ: پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔
اس کے بعد امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کی سند حسن الاسناد ہے اور عبد اللہ بن یوسف ، یحیی بن حمزہ، وضین، اور القاسم سب کے سب اہلِ روایت ہیں اور روایت حدیث میں معروف ہیں، یہ راوی ایسے نہیں ہیں جیسے پہلے بیان کردہ آثار کے راوی ہیں۔ لہذا اگر یہ مسئلہ صحت سند کی بنا پر ہی اخذ کیا جائے گا تو پھر اسی دوسری روایت کو لینا چاہیے اسی کا حق زیادہ بنتا ہے" ختم شد
امام طحاوی کی اس بات پر البانی رحمہ اللہ نے "السلسلة الصحيحة" (2997) میں موافقت کی ہے۔
تاہم ان راویوں میں سے وضین بن عطاء کے متعلق اگرچہ امام احمد اور ابن معین نے یہ کہا ہے کہ: " لا بأس به " یعنی کہ اس میں کوئی شدید ضعف نہیں ہے، لیکن پھر بھی اہل علم نے اس پر کلام کیا ہے، مثلاً: ولید بن مسلم سے مروی ہے کہ انہوں نے وضین کے بارے میں کہا تھا: " كان صاحب خطب ، ولم يكن في الحديث بذاك" یعنی وہ خطیب تو تھا، لیکن حدیث میں ان کا کوئی اعلی مقام نہیں تھا۔ جوزجانی کہتے ہیں کہ: " واهي الحديث " یعنی اس کی احادیث بہت زیادہ کمزور ہوتی ہیں۔ ایسے ہی ابو حاتم کہتے ہیں کہ: " تعرف وتنكر " یعنی اس کی روایات معروف اور منکر دونوں قسم کی ہیں، اسی طرح ابراہیم بن اسحاق حربی کہتے ہیں: " غيره أوثق منه " دیگر راوی اس سے زیادہ ثقہ ہیں۔ جبکہ عبد الباقی بن قانع کہتے ہیں: یہ ضعیف راوی ہے۔
دیکھیں: "تهذيب التهذيب" (11/121)
اس بنا پر جو احادیث پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ کا ذکر کرتی ہیں وہ دیگر روایات سے زیادہ صحیح اور تعداد میں بھی زیادہ ہیں، لہذا ان روایات کو ترجیح حاصل ہو گی، نیز جمہور صحابہ کرام اور فقہائے عظام بھی انہی پر عمل پیرا ہیں۔
جیسے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[سات اور پانچ تکبیروں والی] حدیث متصل ہے نیز اسی پر مسلمانوں کا عمل بھی ہے اس لیے اس حدیث پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے" ختم شد
"السنن الكبرى" (3/291)
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس حدیث کو ہم نے اپنایا ہے اس کے راویوں کی تعداد، ان کا حافظہ، اور ان کی ثقاہت دیگر سے زیادہ ہے، نیز ان کے ساتھ زیادہ اہل علم کی تعداد ہے، واللہ اعلم" ختم شد
"المجموع" (5/25)
نیز پہلے امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیرات والی حدیث کے متعلق گزر چکا ہے کہ: یہ روایت اس مسئلے میں صحیح ترین ہے۔
سوم:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ چیز ثابت ہے کہ وہ پہلی رکعت میں چار اور دوسری رکعت میں بھی چار تکبیریں کہا کرتے تھے، یہی عمل کچھ دیگر صحابہ سے بھی منقول ہے۔
اس کی تفصیلات جاننے کیلیے آپ "مصنف ابن أبي شيبة" (2/78 – 81) کا مطالعہ کریں۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجتہادی مسئلہ ہے کہ مسلمان کو جو طریقہ زیادہ بہتر ، مناسب اور راجح لگے اس کے مطابق عمل کر لے، اور مخالفین پر اعتراض نہ کرے۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی مخالفت کرتے ہوئے پہلی اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہہ دے، یا پھر دونوں رکعتوں میں سات کہہ دے، جیسے کہ صحابہ کرام سے منقول بھی ہے تو اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: عیدین کی تکبیرات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام میں اختلاف ہے، اور سب کے سب طریقے جائز ہیں، یعنی امام احمد کے ہاں اس مسئلے میں وسعت ہے، یعنی اگر کوئی انسان صحابہ کرام کے طریقے سے ہٹ کر تکبیرات کہہ دے تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ در حقیقت یہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب کا اصول ہے کہ جب کسی مسئلے کے بارے میں سلف کا اختلاف ہو ، نیز مسئلے کے متعلق کوئی قطعی نص موجود نہ ہو تو اس میں سلف سے منقول تمام طریقے جائز ہوں گے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ صحابہ کے موقف کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی لیے امام صاحب کہتے ہیں کہ: اگر کسی موقف کی تائید میں کوئی قطعی نص موجود نہیں ہے تو پھر سب اقوال ٹھیک ہیں، اس مسئلے میں وسعت ہے۔ تو بلا شک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہ طرز امت میں اتحاد ، اتفاق اور یکجہتی کیلیے بہترین طریقہ کار ہے؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اجتہادی مسائل کو اختلاف اور تفرقے کا باعث بنا دیتے ہیں، بلکہ اپنے مخالف بھائی کو گمراہ بھی کہہ دیتے ہیں حالانکہ ممکن ہے کہ وہ خود اپنے موقف کی وجہ سے گمراہ ہو! اس زمانے میں اگرچہ نوجوانوں میں بیداری کی ہوا چل پڑی ہے لیکن ساتھ میں یہ پھیل جانے والی بہت بڑی برائی ہے ؛ کیونکہ ممکن ہے کہ اس روش سے بیداری کی ہوا تھم جائے، اور اختلافات کی وجہ سے گہری نیند میں دوبارہ لوٹ جائیں۔ اختلاف کرنے والے نوجوانوں میں سے ہر ایک کسی ایسے اجتہادی مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے جہاں کوئی قطعی نص نہیں ہے ایک دوسرے کو سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس روش کی وجہ سے صرف وہی لوگ خوش ہوتے ہیں جو نوجوانوں میں بیداری کی اس ہوا سے ناخوش ہیں؛ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑا اور یہ نوجوان آپس میں ہی لڑنے بھڑنے لگ گئے، اور ایک دوسرے سے اتنا بغض رکھنے لگے ہیں کہ کسی فاسق سے اتنا بغض نہیں رکھا جاتا -اللہ اپنی پناہ میں رکھے- یہ یقینی بات ہے کہ بہت نقصان کی علامت ہے۔
اس لیے تشنگان علم کو چاہیے کہ اس روش کے نقصانات کو بھانپ لیں۔
اور میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے کوئی وحی آئی ہے کہ صرف تمہاری بات ہی صحیح ہے؟ اگر وحی نہیں آئی تو اسے کیسے معلوم ہوا کہ اس کی بات ہی صحیح ہے؟ ممکن ہے کہ فریق ثانی کی بات صحیح ہو! اور وہ خود غلطی پر ہو! اب کسی کے پاس وحی نہیں آ سکتی ، کتاب و سنت ہمارے سامنے ہیں۔
اگر مسئلہ اجتہادی نوعیت کا ہے تو اپنے بھائی کے اجتہاد کی وجہ سے اس کا عذر قبول کرے۔
ہاں بھائیوں کے درمیان علمی اور مفید مباحثہ اچھی بات ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم میں اس کیلیے تجویز یہ دیتا ہوں کہ باہمی مباحثہ جب ہو تو مجلس میں کوئی اور موجود نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ سننے والے اس مباحثے سے ایسے تاثرات لے سکتے ہیں جو مباحثہ کرنے والوں کے دل میں نہ ہوں۔
کیونکہ ممکن ہے کہ دونوں گفتگو کرنے والے آپس میں ایک نکتہ اتفاق تک پہنچ جائیں لیکن سامعین اپنے دلوں میں کچھ اور ہی لیکر جائیں، اور شیطان ان کو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا دے، تو مسئلہ وہیں پر آ جائے گا کہ دو کا تو اتفاق ہو گیا لیکن نئے لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
تو میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالی امام احمد رحمہ اللہ کو جزائے خیر سے نوازے کہ انہوں نے بہترین طریقہ اپنایا کہ:" جب کسی مسئلے کے بارے میں سلف کا اختلاف ہو ، نیز مسئلے کے متعلق کوئی قطعی نص موجود نہ ہو تو اس میں سلف سے منقول تمام طریقے جائز ہوں گے " ختم شد
"الشرح الممتع" (5/136-138)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (36491) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.