اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

بچوں کی صلاحیتوں میں کافی فرق ہے تو والد سب کے درمیان عدل کیسے کرے؟

19-11-2024

سوال 145050

اللہ تعالی نے ہر شخص کو الگ سے ایک شخصیت اور دیگر صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، اگرچہ انسانوں میں بہت سی چیزیں یکساں بھی ہیں لیکن پھر بھی کچھ خوبیاں اور صلاحیتیں ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں میں نہیں پائیں جاتیں، تو اسی تناظر میں میرا سوال بچوں کے بارے میں ہے کہ: مختلف صلاحیتوں کی وجہ سے والد اپنے بیٹا اور بیٹی سب بچوں کے درمیان عدل کیسے کرے؟ کیونکہ والد بھی انسان ہے تو کچھ بچوں کی صلاحیتوں اور خوبیوں کی وجہ سے کچھ بچوں کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوتا ہے!؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

-اللہ تعالی نے جتنی بھی مخلوقات پیدا کی ہیں سب کی صفات ، مزاج اور اخلاقیات میں بہت زیادہ فرق بھی رکھا ہے، یہ بات مبنی بر حقیقت بھی ہے اور ہمارے مشاہدے میں بھی آتی ہے، پھر اس نوعیت کی انفرادیت اس جہان کی ہر چیز میں پائی جاتی ہے۔ اور اس کی معمولی شکل ایک خاندان کے افراد اور بچوں میں بھی نظر آتی ہے، یہ اللہ تعالی نے کس لیے کیا ہے اس میں اللہ تعالی کی بے پناہ حکمتیں ہیں، نیز یہ اللہ تعالی کی عظیم قدرت کی دلیل بھی ہے۔

2-والد کا اپنی اولاد میں سے کسی ایسے بچے کی طرف قلبی میلان رکھنا جس میں مثبت خوبیاں پائی جاتی ہوں تو یہ ناقابل تردید حقیقت ہے، پھر یہ خوبیاں اخلاقی بھی ہو سکتی ہیں اور تخلیقی بھی، یا پھر کسی بچے میں کوئی ایسی خوبی ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف میلان رکھتے ہیں، مثلاً: ہنس مکھ ہے، یا اسے غصہ نہیں آتا، یا اس کی باتیں بڑی میٹھی میٹھی سی ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بھی لازم نہیں ہوتا کہ انسان کا میلان بیٹے کی جانب زیادہ ہو، بلکہ ہمیں ایسی بہت سی مثالوں کا علم ہے کہ جس میں والد کا میلان بیٹیوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے، اور اسی طرح بیٹیوں کا میلان والد کی جانب زیادہ ہوتا ہے۔

3- ایسے قلبی میلان کی وجہ سے والد کو کسی قسم کی ملامت کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا، لیکن یہ مناسب اور حکمت نہیں ہے کہ اس بات کا اظہار والد اپنے بچوں کے سامنے بھی کرے؛ کیونکہ اس طرح سے خرابیاں جنم لیں گی، ہاں اگر کسی کا صرف ایک ہی بیٹا ہے تو اس کے سامنے جو مرضی دل میں آئے کہہ دے، اسے کوئی کسی قسم کی ملامت کا نشانہ نہیں بنائے گا۔

4-بہت سے والدین کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ اگر کسی ایک بچے میں اچھی اور دلکش خوبیاں پائی جاتی ہیں یہی خوبیاں اس بچے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں؛ کیونکہ بچہ اپنی خوبیوں پر غرور اور تکبر کرنے لگ جاتا ہے، اور کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بچہ سست اور کاہل بن جائے اور اپنا ہر کام دوسروں سے کروانے کا عادی بن جائے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ایسا بچہ کبھی بھی نہ تو اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے والد کا ہاتھ بٹا سکے گا، اسی طرح وہ پورے خاندان پر بھی بوجھ بن کر رہ جائے گا۔

5-ایسی فیملی جس میں ممتاز بچوں کو خاندان کے کسی بھی فرد کی جانب سے دیگر پر فوقیت دی جاتی ہے تو ان میں بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

الف: بقیہ بچے دینی اور دنیاوی امور میں کامیابی اور آگے بڑھنے کے لیے پسپائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ب: دیگر بچوں میں ذہنی اور جسمانی امراض کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔

ج: ممتاز بچے کے خلاف دوسرے بچے چالبازیاں چلتے ہیں، اور بسا اوقات معاملہ قتل تک جا پہنچتا ہے۔

چنانچہ اپنی اولاد کے درمیان فرق رکھنے والے والدین ہی بچوں میں تفریق اور خاندان کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے پورا حصہ ڈالتے ہیں؛ کیونکہ یہی امتیازی سلوک ہی بچوں میں عداوت، بغض اور حسد پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے، اور محرومیت کا شکار بچے آپس میں اکٹھے ہو کر لاڈلے بچے کے خلاف ہو جاتے ہیں، بلکہ بسا اوقات والدین کے خلاف بھی محاذ کھڑا کر لیتے ہیں، اس حوالے سے سیدنا یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں غور و فکر کرنے والے کو یہ سب چیزیں مصدقہ طور پر مل جائیں گی کہ محرومی کا احساس رکھنے والے بچوں نے سیدنا یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا کچھ کیا، اللہ تعالی نے ان کے اس عمل کی وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: إِذْ قَالُواْ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَى أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ . اقْتُلُواْ يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
ترجمہ: جب انہوں نے کہا: یوسف اور اس کا بھائی تو ہمارے والد کو ہم زیادہ محبوب ہیں؛ حالانکہ ہم سب کڑیل جوان ہیں؛ یقیناً ہمارا والد واضح گمراہی میں ہے۔ [انہوں نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ] تم یوسف کو قتل کر دو یا اسے کسی ویرانے میں پھینک دو، تو تمہارے والد کی توجہ صرف تمہارے لیے رہ جائے گی، اور تم اس کے بعد [اس برے عمل سے توبہ کر کے] اچھا گروہ بن جانا۔ [یوسف: 8 – 9]

اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام اپنے ان بچوں پر کبھی بھی ظلم نہیں کرتے تھے، بچوں نے اپنا رد عمل سیدنا یعقوب علیہ السلام کی سیدنا یوسف علیہ السلام کے ساتھ صرف قلبی محبت کی وجہ سے دیا تھا، [یعنی عملی طور پر آپ علیہ السلام اپنے تمام بچوں کے درمیان عدل ہی کرتے تھے، لیکن قلبی میلان یوسف اور ان کے بھائی کی جانب ہوتا تھا۔ اور قلبی میلان کو کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ مترجم] تو اگر والد عملی طور پر بھی کسی بچے کو وہ کچھ عنایت کرے جو دوسروں کو نہیں دیتا تو پھر اس پر محرومی کے شکار بچوں کا رد عمل کیا ہو گا؟ اس بات سے اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں!

6- لوگوں کے ہاں اپنی اولاد کے ساتھ امتیازی سلوک کی مشہور ترین صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:

[بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے بعد] ان کے جیب خرچ وغیرہ میں امتیازی سلوک کرنا، یہ عمل شریعت الہی میں واضح طور پر حرام ہے، اور اس طرح کے امتیازی سلوک کی وجہ سے جو خرابیاں جنم لیتی ہیں ان میں والدین کی نافرمانی، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سب بچوں میں عدم یکسانیت۔ حالانکہ اس حوالے سے بھی ہمارے پیارے پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں مکمل تنبیہ فرمائی ہے اور واضح ترین لفظوں میں بچوں کو نوازتے ہوئے فرق رکھنے کو ظلم قرار دیا ہے۔

جیسے کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: مجھے میرے والد گود میں اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے گئے اور فرمایا: (یا رسول اللہ! آپ گواہ بن جائیں کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو اپنا فلاں فلاں مال عطا کر دیا ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا اپنے تمام دیگر بچوں کو بھی اتنا ہی عطا کیا ہے جتنا آپ نے نعمان کو دیا ہے؟) تو بشیر نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پھر میرے علاوہ کسی اور کو اس پر گواہ بنا ؤ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا: (کیا تمہیں یہ اچھا لگتا ہے کہ آپ کے سب بچے آپ کے ساتھ یکساں طور پر حسن سلوک سے پیش آئیں؟) تو بشیر نے کہا: کیوں نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پھر بالکل بھی یہ کام مت کریں۔) مسلم: (3059)

تو جس طرح اللہ تعالی نے بچوں کو نوازتے ہوئے امتیازی سلوک کرنے کو منع قرار دیا ہے اسی طرح ایک اور چیز بھی حرام قرار دی کہ کسی بھی بچے کے لیے وصیت کر جائیں، چنانچہ اللہ تعالی نے کسی بھی وارث کے حق میں وصیت کر جانے کو حرام قرار دیا ہے، یہ تمام قواعد و ضوابط اور احکامات سب کے سب خاندانی معاملات کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے ہیں اور خاندان کے افراد کو باہمی جوڑنے اور خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے روکنے کے لیے ہیں۔

7-والد کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اس کے بچوں میں سے کوئی بھی کامل ترین نہیں ہو سکتا، لہذا اگر کوئی بچہ بڑا با صلاحیت ہے اگر والد اسے بھی انصاف کی نظر سے دیکھے تو اس میں بھی کئی منفی باتیں نظر آ جائیں گی۔ اسی طرح جن بچوں کے ساتھ والد امتیازی سلوک کر رہا ہے انہیں بھی انصاف کی نگاہ سے دیکھے تو ان میں سے کئی بچوں میں بہت سی دیگر مثبت خوبیاں نظر آئیں گی۔ لہذا جو بچہ بڑی میٹھی میٹھی باتیں اور حرکتیں کرتا ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ دکان سے کوئی بھی چیز خرید کر نہ لا سکتا ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ مہمانوں کی مہمان نوازی کا اہل نہ ہو، اس لیے والدین کو یہ امور بھی دیکھنے چاہییں، اور بچوں میں پائی جانے والی اچھی خوبیوں کو مزید نکھاریں، انکی حوصلہ افزائی کریں، اور دیگر سے یہ مطالبہ نہ کریں کہ سب ہی ایک جیسے بن جائیں؛ کیونکہ ہر کسی کو وہی کرنے کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، اس لیے کہ ایسا ممکن ہے کہ کچھ بچوں میں عملی اقدامات کی صلاحیت ہو جبکہ دیگر میں علمی ، اور تیسرے میں کاروباری صلاحیتیں ہوں، بالکل اسی طرح سب کے مزاج بھی یکساں نہیں ہوں گے، تو ایسے میں سمجھ دار والد سب کو ایک جیسا بنانے کی بجائے ایک دوسرے کا معاون بنا کر سب کو ایک دوسرے کو مکمل کرنے والا بنا دے، لہذا جب کسی ایک کی خوبیوں کی تعریف کرے تو دوسرے میں پائی جانے والی دیگر خوبیوں کی تعریف بھی کرے، اس طرح اللہ تعالی کے حکم اور توفیق سے ان میں کسی قسم کا حسد، اور دشمنی بھی پیدا نہیں ہو گی۔

8- اس سلسلے میں والدین اپنے بچوں میں سے غلطی کرنے والے کو مارنے سے بچیں اور اس سے یہ مطالبہ نہ کریں کہ وہ اپنے فلاں بھائی جیسا بن جائے۔ بلکہ اس کے ہم عمر رشتہ دار یا پڑوسیوں کے بچوں میں سے کسی کا نام لیا جائے، یا پھر کسی کا نام لیے بغیر اچھی عادات اپنانے کی ترغیب دلائی جائے اور بری عادات سے روکا جائے، بچوں کو بھائیوں کی طرح بننے کی ترغیب دینے سے زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں دشمنی اور بغض پیدا ہو جائے گا۔

9- یہ بھی عدل نہیں ہے کہ والد نافرمان بچے کو اطاعت گزار بچے جیسا بنا دے، وگرنہ تو بچے کے حسن سلوک کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہو گا، لہذا والد اپنے بچوں کو بالکل واضح کر دے کہ گھر میں اچھے انداز سے رہنے والے کی عزت افزائی ہو گی مثلاً: گھر کے کام کاج میں والدہ کا ہاتھ بٹانا وغیرہ، اور اگر کوئی شخص غلط کام کرے گا تو اسے سزا ملے گی، -سزا کی سختی وغیرہ غلطی کی نوعیت کے حساب سے ہو- یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ اچھے بچے کو خصوصی تحفہ ملے یا نوازا جائے؛ کیونکہ یہ تو حرام ہے، ہمارا مطلب یہ ہے کہ اسے زبانی کلامی شاباش دے، یا کسی دن کے جیب خرچ میں اضافہ کر دے، یا اچھے بچے کے ساتھ زیادہ دیر تک شرعاً جائز کھیل کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ وغیرہ وغیرہ، ہم جس عدل کی والدین سے امید کرتے ہیں وہ یہی عدل ہے، عدل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب بچوں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جائے کہ بچہ اچھا ہو یا برا دونوں کے ساتھ یکسانیت کے ساتھ نمٹا جائے!! اگر کوئی والد ایسا کرتا ہے تو وہ اچھے بچے کے حق میں ظالم قرار پائے گا۔

لہذا والد خطا کار اور نافرمان بچے کو غلطی کے ذرائع سے روکنے کے لیے اسے پیسے نہ دے، بلکہ والد پر لازم ہے کہ اپنے بچے کو کسی بھی ایسے کام سے روکے جو اللہ تعالی کی ناراضی کا باعث بن سکتا ہو۔

الشیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرمایا کہ: (میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا) جس کا صاف مطلب ہے کہ: اگر والد کسی ایک بچے کی طرفداری اور میلان رکھتا ہے تو اسے ظالم کہا جائے گا۔ لیکن جس بچے کی جانب والد کا میلان ہے اگر وہ اچھا بچہ ہے اور دوسرا بے حیا اور برا ہے تو پھر یہ میلان اور طرفداری جائز ہو جائے گی، چنانچہ اگر والد بچے کی اصلاح میں ناکام رہے اور بچہ نافرمان، والدین سے بد سلوکی کرنے والا، اللہ کی نافرمانی کرنے والا، ذات باری تعالی سے روگرداں ہو، شراب نوشی میں ملوث ہو، یا کسی بھی اور گناہ کا تسلسل کے ساتھ مرتکب ہو رہا ہو، والدین اس کی اصلاح میں ناکام ہو چکے ہوں تو پھر امتیازی سلوک برتنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں ان کے لیے یہ جائز ہو جائے گا کہ اسے دوسروں کے برابر مت سمجھیں، اور معاملات میں اس کے ساتھ سختی کریں، چاہے اس کے لیے اس کا خرچہ پانی بند کرنا پڑے تو یہ بھی کر سکتے ہیں، اسی طرح راہ راست پر لانے کے لیے جسمانی سزا بھی دے سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے راہِ راست پر چلنے کی توفیق دے دے۔

” دروس الشيخ ابن جبرين ” ( 1 / 23 ) – مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق-

10- ہم والدین کو یہ بھی نصیحت کریں گے کہ اپنے بچوں میں سے جسے اپنے بہن بھائیوں کی طرف سے شفقت اور پیار کی زیادہ ضرورت ہے اس کا خیال رکھنے کی سب کو ترغیب دلائیں، مثلاً: کوئی بچہ جسمانی طور پر معذور بھی ہو سکتا ہے تو اس صورت میں یہ مناسب نہیں کہ والدین اپنے معذور بچے کے لیے خود سے پہلے اس کے صحیح سلامت بہن بھائیوں کی توجہ نہ دلوائیں، بلکہ انہیں اپنے معذور بھائی یا بہن کا خیال رکھنے کی ترغیب دیں اور خود بھی اس کا خیال رکھیں ؛ اس سے معذور بچہ احساس کمتری کا شکار نہیں ہو گا، اور اس طرح بہن بھائیوں میں کسی قسم کی دشمنی بھی پیدا نہیں ہو گی۔

11-بچوں کے مزاج اور خوبیوں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو لیکن بچوں کے درمیان ظاہری امور میں عدل قائم رکھنا شرعی طور پر واجب ہے؛ لہذا اگر والد نے کسی ایک بچے کی شادی اپنے خرچے سے کی ہے تو ان میں سے جو بھی شادی کرنا چاہے تو اس کی شادی کے اخراجات بھی ادا کرے، اسی طرح اگر کسی بچے کا علاج اپنے خرچے سے کروایا ہے تو جو بھی بچہ بیمار ہو گا اس کا علاج بھی اپنی جیب سے کروائے، اسی طرح اگر کسی کی شرعاً جائز تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی ہے تو دیگر کی شرعاً جائز تعلیم کی ذمہ داری بھی اٹھائے، یہی بات لباس اور دیگر اخراجات کے بارے میں بھی کہی جائے گی، تو ہم والد سے عدل کرنے کا مطالبہ کریں گے برابری کا نہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر ایک بچے کی متعلقہ ضرورت پوری کی جائے گی۔ سلف صالحین میں سے کچھ تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ بچوں کو “بوسہ” دیتے ہوئے بھی برابری کی جائے۔!!

امام بغوی رحمہ اللہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی سابقہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہونے والے فوائد : بچوں کو نوازتے ہوئے اولاد کے درمیان برابری سے کام لینا ہے، بلکہ بچوں کے ساتھ اپنائے جانے والے کسی بھی قسم کے مثبت سلوک میں برابری کرنی ہے حتی کہ بوسہ دیتے ہوئے بھی ، بیٹے اور بیٹیوں سب کے درمیان برابری کرنی ہے، تا کہ کسی کے دل میں بھی احساس محرومی نہ آئے اور بچوں کے والدین کے ساتھ حسن سلوک میں کوئی فرق پیدا نہ ہو۔
” شرح السنة ” ( 8 / 297 )

ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ: سلف صالحین بچوں کے درمیان یہاں تک عدل کو اچھا سمجھتے تھے کہ بوسہ دیتے ہوئے بھی عدل کیا جائے۔
” مصنف ابن أبي شيبة ” ( 11 / 221 )

اس طرح بچوں میں سے کسی کو بھی کسی دوسرے پر فضیلت نہ دی جائے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ سب کے بارے میں قلبی رجحانات اور اثرات یکساں ہوں؛ کیونکہ یہ چیز والد کے اختیار میں ہی نہیں ہے، البتہ والد ظاہری امور میں عدل کر سکتا ہے، قلبی امور میں نہیں۔ یہ معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کی ایک سے زائد شادیاں ہوں تو کسی ایک بیوی کی محبت دل میں زیادہ ہوتی ہے، اور اس باوجود بھی حکم یہی ہے کہ سب کے مابین عدل کرنا ہے، یہ عدل انہی چیزوں میں ہو گا جس میں انسان کا اختیار ہے اور وہ ہیں ظاہری امور مثلاً: نفقہ، رات بسر کرنا اور لباس وغیرہ مہیا کرنا۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اپنی رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اولاد کے مابین عدل کرنے پر معاونت فرمائے۔

واللہ اعلم

اولاد کی تربیت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔