"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں نے طوافِ افاضہ کو طوافِ وداع تک مؤخر کیا اور پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ چھت پر طواف شروع کر دیا، تیسرا چکر مکمل ہونے سے کچھ دیر پہلے میرا وضو ٹوٹ گیا تو میں اسی طرح چلتے ہوئے چھت پر وضو کی جگہ تک پہنچ گیا میں نے اسے بھی اپنے طواف میں شمار کیا پھر اس کے بعد چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں چکر میں رش کی وجہ سے سعی کی جگہ میں چلا جاتا اور پھر دوبارہ مطاف میں داخل ہو جاتا تھا، اس کا کیا حکم ہے؟
الحمد للہ.
اول:
جمہور علمائے کرام کے ہاں طواف کیلیے طہارت شرط ہے، لیکن اگر کسی کا دورانِ طواف وضو ٹوٹ جائے اور پھر وضو کر لے تو اب اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا بقیہ طواف مکمل کرے گا یا شروع سے طواف دوبارہ کرے گا؟ اس بارے میں دو اقوال ہیں، چنانچہ حنفی اور شافعی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ اپنا بقیہ طواف مکمل کرے گا، جبکہ مالکی اور حنبلی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ ابتدا سے طواف دوبارہ کرے گا۔
دیکھیں: الموسوعة الفقهية (29/ 131)
کچھ اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ طواف کیلیے طہارت شرط ہی نہیں ہے، اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، لہذا جس شخص کا طواف کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اسے وضو کیلیے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (34695) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ کے سوال سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے تیسرا چکر بغیر وضو کے مکمل کیا ہے ؛ چنانچہ اگر ایسے ہی ہے تو پھر جمہور اہل علم کے ہاں آپ کا طواف صحیح نہیں ہے۔
جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے ہم موقف اہل علم کے ہاں آپ کا طواف صحیح ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اگر دورانِ طواف وضو ٹوٹ جائے تو کیا حکم ہے؟
انہوں نے جواب دیا:
"اگر طواف کرنے والے کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ فوری طور پر جا کر وضو کرے اور پھر دوبارہ نئے سرے سے طواف کرے ، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے؛ کیونکہ ان کے ہاں طہارت طواف کی شرط ہے۔
جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
اگر دورانِ طواف وضو ٹوٹ جائے تو وہ اپنا طواف جاری رکھے اس کیلیے دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ طواف کیلیے وضو شرط نہیں ہے۔
اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بات درست ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طواف کیلیے وضو کی شرط سے متعلق کوئی بھی بات ثابت نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کا ارادہ فرمایا تو وضو کر کے آپ نے طواف کیا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے ، اور صرف عمل سے کسی بھی کام کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔
ایسے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض آنے پر فرمایا: (تم بھی وہی کچھ کرو جو حاجی کرتے ہیں ، صرف بیت اللہ کا طواف مت کرنا) یہ اصل میں اس لیے تھا کہ آپ حائضہ تھیں، اور عام طور پر حائضہ کے مسجد میں جانے سے مسجد آلودہ ہونے کا امکان ہوتا ہے ، نیز حائضہ کیلیے مسجد میں ٹھہرنا بھی درست نہیں، اور اسی طرح جنابت والا شخص بھی مسجد میں نہیں ٹھہر سکتا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی اسی طرح ہے جب انہیں حج کے بعد حیض آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا یہ ہمیں [واپسی سے]روکے گی) اس پر صحابہ کرام نے کہا: "انہوں نے طوافِ افاضہ کر لیا ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پھر [مدینہ]کوچ کرو)یہ حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر صفیہ رضی اللہ عنہا حیض سے ہوتیں تو بیت اللہ کا طواف نہ کرتیں۔
ان تمام احادیث کے بارے میں یہ بھی کہا جائے گا کہ حیض اور بے وضگی دو الگ الگ چیزیں ہیں، لہذا اگر طواف کیلیے وضو کرنا شرط ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ضرور بیان فرماتے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ بہت سے لوگ بے وضو ہی طواف کرتے ہوں۔
یہی وہ بات ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اور یہی درست ہے ، اسی کے مطابق ہم فتوی دیتے ہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسان با وضو ہو کر طواف کرے یہ افضل ، محتاط اور زیادہ بہتر ہے، لیکن بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ انسان با وضو نہیں رہ سکتا یا وضو ٹوٹنے پر واپس جانا مشکل ہوتا ہے ، مثال کے طور پر جب ازدحام بہت زیادہ ہو اور وضو ٹوٹ جائے ، اب اگر ہم اسے کہیں کہ: جاؤ اور وضو کر کے آؤ، اس پر وہ چلا گیا اور وضو کر کے آ گیا ، وہ اب دوبارہ سے طواف شروع کرے گا، پھر اسے گیس کی بیماری ہونے کی وجہ سے دوبارہ وضو ٹوٹ گیا ، اب پھر اسے کہیں کہ جاؤ اور وضو کر کے آؤ اور دوبارہ سے طواف کرو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ازدحام کے دنوں میں وضو کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے؛ کیونکہ ان دنوں میں مطاف سے نکلنا ہی مشکل ہو جاتا ہے پھر اگر نکل بھی جائے تو وضو کیلیے جگہ خالی نہیں ملتی، پھر اگر وضو کر بھی لے تو دوبارہ اس کیلیے مطاف میں داخل ہونا کب ممکن ہو گا؟
لہذا اللہ کے بندوں پر کوئی ایسی چیز لازمی قرار دے دینا کہ جس کیلیے کتاب و سنت سے دلیل بھی نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اتنی مشقت بھی ہو ، حقیقت یہی ہے کہ ایسا کرنے کی گنجائش نہیں ! یعنی ایسے امور میں اللہ کے بندوں پر بغیر کسی دلیل کے کوئی چیز واجب کرنے کی انسان کو اجازت نہیں ہے، ہاں اگر معاملہ اس نوعیت کا ہوتا کہ حج و عمرے کے سیزن نہ ہوں اور آسانی سے انسان وضو کر کے واپس جا کر دوبارہ طواف شروع کر سکتا تھا تو یہاں صورتِ حال کچھ اور تھی؛ لہذا ہم یہی کہتے ہیں کہ وضو کرنا بہتر ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے کو ہی ہم صحیح سمجھتے ہیں کہ طواف کیلیے وضو کرنا شرط نہیں ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن عثیمین" (22/ 361)
دوم:
سعی کی جگہ سے طواف کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ سعی کی جگہ مسجد الحرام سے باہر ہے، یہی وجہ ہے کہ حائضہ کو وہاں جانے کی اجازت ہے، تاہم اگر ازدحام شدید نوعیت کا ہو اور انسان کو سعی کی جگہ میں داخل ہوئے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر سعی کی جگہ میں جا کر دوبارہ مطاف میں واپس آ جائے، تو ایسی صورت میں قابل تلافی ہو گا اور طواف صحیح ہو گا۔
مزید کیلیے سوال نمبر: (106543) کا جواب دیکھیں
واللہ اعلم.